ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
مثلا شادی بیاہ کی رسوم کہ ان کے نتائج تباہی و بربادی میں ظاہر ہوجاتے ہیں تو لوگوں کو تنبہ ہو جاتا ہے اورمضر دین کے کہ ان پر تنبہ ہونے کا کون باعث ہوسکتا ہے ۔ بلکہ بالعکس ان میں عدم تنبہ کا داعی موجود ہو جاتا ہے وہ یہ کہ ان رسوم میں چٹک مٹک بہت ہوتی ہے جس میں دل خوب لگتا ہے پھر آدمی ان کو چھوڑے تو کیونکر ۔ اور ہم نے تو ایسے لوگوں کی صحبت پائ ہے ۔ جن میں رسمیں بالکل نہ تھیں سادہ زندگی بسر کرنے والے تھے انکی معیشت دیکھ کر ہم کو تو یہ بات بخوبی ثابت ہو گئی ہے کہ آسائش کی زندگی بھی وہی ہے جس میں تصنع اور بناوٹ اور تکلف نہ ہو ۔ حکایت مولانا مظفر حیسن صاحب ہماری طرف ایک قصبہ کاندھلہ ہے ۔ وہاں کے رہنے والے ایک بزرگ مولوی مظفر حیسن صاحب تھے ان کے یہاں جب کوئی مہمان آتا تو پوچھ لیتے کہ کھانا کھا کر آئے ہو یا یہاں کھاؤ گے ۔ اگر اس نے کہا یہاں کھاؤں گا تو پوچھتے کہ تازہ پکوایا جائے یا رکھا ہوا کھا لوگے ۔ اگر اس نے کہا کہ تازہ کھا ؤں گا ۔ تو پوچھ لیتے کہ کون سی شے مرغوب ہے ۔ جو چیز مرغوب ہوتی وہی پکوادیتے یہ کس قدر آرام دہ بات ہے ۔ مولانا مملوک علی صاحب ک حکایت انہیں بزرگ کا قصہ ہے کہ انہوں نے مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی سے فرمایا ۔ جن کا قیام دہلی رہتا تھا ۔ کہ مولانا جب آپ وطن جایا کریں راستہ میں مجھ سے مل جایا کریں ۔ مولانا نے کہا اچھا ۔ لیکن میری منزل میں حرج نہ ہوا کرے ۔ انہوں نے کہا نہیں جیسا آپ فرماتے ہیں ویسا ہی ہوگا ۔ ایک دفعہ کا قصہ ہے مولانا دہلی سے نانو تہ جارہے تھے راستہ میں مولوی مظفر حسین صاحب سے ملنے کے لئے ٹھیرے ۔ مولوی مظفر صاحب نے حسب معمول پوچھا کھانا کھا لیا ہے یا کھاؤ گے ۔ انہوں نے کہا کہ کھائیں گے ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ تازہ تیار کراؤں یا جو رکھا ہوا ہو وہی لے آؤں ا انہوں نے کہا جو رکھا ہوا ہو وہی لے آیئے ۔ مولوی صاحب ایک مٹی کے برتن میں کھچڑی کی کھر چن لے آئے اور کہا رکھا ہوا تو یہ ہے ۔ بس وہ اس کو کھا کر رخصت ہو گئے بتایئے اس میں آرام ہے یا ان رسوم میں جس کے آجکل لوگ پابند ہیں ۔ اور جس کو تہذیب اور خاطر داری کہا جاتا ہے ۔ ان حضرات کا خود بھی