ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
قیمت دے دی گئی ۔ اور تخت کا کرایہ بھی دے دیا گیا وہ بنیا اسی دھرم شالہ میں دوسری طرف بیٹھتا ہے اس سے کہہ دیا گیا کہ تخت اٹھوا لے جائے گا ۔ فرمایا کام تو لیا ہم نے اور اٹھوا لیگا ۔ عقد اجارہ میں کیا یہ بھی ملے ہوا تھا کہ یہاں اٹھا کر لے جانا اس کے ذمہ ہے ۔ اس کو نکال کر اس کے پاس پہنچایا جائے ۔ چنانچہ خدام نے کوٹھری میں نکال کر باہر رکھا ۔ اس بنئے نے خود کہا کہ یہاں سے میں اٹھالوں گا تب وہاں سے روانہ ہوئے ( حضرت کو معاملات کا بہت ہی زیادہ خیال رہتا ہے اور اس میں تاخیر وامہال کو بھی رد نہیں رکھتے ۔ مزدوروں کا ناخوش نہ کرنا گھاٹ پر کشتی میں سوار ہوئے تو پوچھا کہ مزدوروں کی مزدوری دے دی گئی ۔ عرض کیا گیا ، ہاں ایک مزدور نے کہا مجھے مزدوری کم ملی ہے لوگوں نے کہا یہی دستور ہے فرمایا دستور کوئی چیز نہیں اور دے دو اور خوش کردو ناراض نہ رہے ۔ کشتی میں سوار ہو کر دریا میں پار پہنچے تو منیجر صاحب کے عملہ واے سر براہ ، کار وغیرہ لینے کو آگئے اور حضرت والا اور جملہ ہمراہیان پیادہ پا منشی اکبر علی صاحب کے دیڑہ تک گئے ۔ 9 بجے دن کو ڈیرہ پر پہنچے ۔ روز یک شنبہ 20 صفر 1335 ھ 17 دسمبر 1916 ء وہاں چاء سے معذوری ظاہری فرمائی اور تھوڑا پراٹھا اور تلوے نوش فرمائے اور ہم خدام نے چاء پی ۔ منشی اکبر علی صاحب نے یہ تشکری خاص طور سے بڑے اہتمام کے ساتھ حضرت والا کے لئے بنوا کر رکھی تھی ۔ بعد ناشتہ کے منشی اکبر علی صاحب نے پوچھا کہیں گھومنے جایئے تو ہاتھی کسوا دیا جائے ۔ فرمایا بہتر ہے ۔ چنانچہ 9 بجے سے 10 بجے تک پاتھی پر ہوا خوری کو گئے راستہ میں ذکر ہوا کہ ہاتھی اتنا پڑا جانور ہے مگر کیسا حق تعالی نے ذرا سے انسان کے واسطے اس کو مسخر کیا ہے ۔ ہاتھی حلال ہے یا حرام پھر فرمایا امام محمد کی ایک روایت میں ہاتھی نجس العین ہے اسی واسطے سواری کو مکروہ کہا ہے اور امام مالک کے نزدیک حلال ہے ۔ چنانچہ سنا ہے کہ حبشہ میں افریقہ میں کھایا جاتا ہے ۔ 10 بجے کے قریب ڈیرہ پر لوٹ آئے دوپہر میں ایک لنگڑہ آدمی مقطوع الرجل اپنے ایک چھوٹے سے بھائی کے ساتھ آیا اور بڑی عقیدت سے ملا اور تھوڑی دیر کے بعد چلا گیا ۔ یہ شخص بڑہل گنج سے آیا تھا ۔ اس کے جانے سے تمام قصبہ