ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
روانگی ہو سکے ۔ لیکن حافظ صاحب جیسے مہمان نواز اور سیر چشم شخص کی سیری ایسی دعوت سے کیا ہوتی کہا ہر قسم کا کھانا سویرے تیار ہو سکتا ہے ۔ میرا خیال تو یہ تھا کہ کم از کم ہفتہ بھر تو قیام ہو گا ۔ اور میں حسب دلخواہ کچھ خدمت کر سکوں گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تو ایک دو وقت بھی کوئی تمنا پوری نہ کرلوں ۔ فرمایا کچھ تکلف نہیں میرا جی گوارہ نہیں کرتا کہ آپ کو تکلیف ہو حافظ صاحب نے طوعا کر ہاں مان لیا ۔ مگر عرض کیا کہ گھر میں جا کر کہتا ہوں ۔ چنانچہ گھر میں سے جواب آیا کہ ایسی باتیں آپ کے فرمانے کی نہیں جو ہمارا جی چاہے گا کریں گے ۔ مہمان اور میزبان میں گفتگو حضرت نے فرمایا آپ کو اختیار بیشک ہے مگر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ اس سے مقصود کیا ہے اکرام سے غرض مہمان کا خوش کرنا ہوتا ہے ۔ اور اگر مہمان کو اس سے تکلیف پہنچے ۔ تو آپ ہی فرمادیں کہ میزبان کو یہ گوارا ہونا چاہیئے یا نہیں مجھے اگر تکلیف پہنچانا ہے تو آپکی خوشی میں ہر طرح حاضر ہوں اس کا جواب کسی کے پاس کچھ نہ تھا ۔ صبح کو بعد نماز ٹھنڈی سڑک کی طرف ہوا خوری کے لئے گئے ۔ احقر اور خواجہ صاحب اور غالبا مولوی عبد الغنی صاحب بھی ساتھ تھے ۔ قریب ایک میل کے جاکر لوٹ آئے ذرا دیر کے بعد کھچڑی (غالبا ارہر کی ) لائی گئی اور کچھ روٹی سالن رات کا بچا ہوا لایا گیا اور کھچڑی اور دہی بڑے اور پھلکیاں اور اچار وغیرہ اس قدر اقسام کی تھیں کہ اتنا تکلف شاید باقاعدہ دعوت میں بھی نہ ہوتا ۔ حضرت والا خدام سے فرمانے لگے میں نے دو ضرورت سے کھچڑی کو اختیار کیا تھا ایک تو یہ کہ تیاری میں دیر نہ ہو اور دوسرے یہ کم خرچ رہے مگر حافظ صاحب کی کھچڑی پلاؤ اور بریانی سے بھی خرچ میں بڑھ گئی حافظ صاحب کی زیر باریاں اور عسرت کی حالت مجھ کو معلوم ہے اس عسرت میں بھی ان کے حوصلے وہی ہیں کیا کیا جائے بڑا بار ان کے اوپر ہوا ۔ موقعہ ایسا تھا کہ ان کی کچھ خدمت کی جاتی نہ کہ اور زیر بار کیا گیا ۔ خدام میں سے کسی نے عرض کیا کہ بطور ہدیہ کچھ پیش کردیا جائے ۔ فرمایا مجھے ان کی حالت معلوم ہے اس موقعہ پر ہرگز منظور نہ کریں گے عرض کیا گیا کسی بچہ کے بہانہ سے دیا جائے فرمایا اس میں بھی عادت ان کی معلوم ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مثلا اگر دس روپیہ بچہ کو دیئے گئے تو ان کو وہ خود ہرگز نہ لیں گے بلکہ اس کا زیور اس کو بنوادیں گے تو ان کی زیر باری کا تو کچھ