ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
میں تحقیق مد نظر ہے ۔ اور آپ لوگوں کو تحقیق مد نظر صرف استہزاء بالدین ہے اور چھیڑ چھاڑمنظور ہے سواس کو تو ہم کبھی سن سکتے ۔ یہ جواب ہے تمہارے سوال کا اور اگر اس کو بھی تعصب ہی کہتے ہوتو دوسری بات کیجئے ایسے جوش کے حضرات پرانے علماء ہیں ۔ جنھوں نے کبھی ایسی بددینی کی باتیں نہ سنی تھیں۔آپ ہم سے پوچھئے ہم ایسے غیرت دار نہیں ۔ وجہ یہ کہ ہم تمہاری صحبت سے اور باربار سننے سے بے غیرت ہوگئے ہیں ۔ ہم سے بے تکلف پوچھئے جو کچھ پوچھنا ہو ۔ جن صاحب نے یہ کہا تھا کہ علماء میں تعصب ہے ۔ ان پر تو ایسا اثر ہوا کہ وہ فورا میرے موافق بن گئے اور طالبعلموں کو بھی سنا کہ آپس میں کہتے تھے جس کو جواب لینا ہو یہاں آجاؤ ۔مگر کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ سوالات کرتے ۔ بلکہ ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اپنے شبہات آزادی کے ساتھ لکھ کر بھیجدو بھی کسی سے نہ ہوا ۔ ان لوگوں کی باتیں ہی باتیں ہیں دوسرے کے سر الزام رکھ کر خودکام سے بچنا چاہتے ہیں۔ غرض علماء سے بد گمانی دور ہی دور سے ہے ۔ ہمارے علماءتو ایسے کریم النفس اور شفیق ہیں کہ ان سے نفرت ہو ہی نہیں سکتی لیکن تصلب کیسے چھوڑدیں نرمی اور چیز ہے اور مداہنت اور چیز ہمارے علماء نرم تو بہت ہی زیادہ ہیں ۔ ہمارے علماء کرام کی کوئی تحریر دل آزار نہیں دکھائی جاسکتی ۔ ہاں جواب ایسا ہوتا ہے کہ اس کاجواب نہ آ سکے ۔ تحقیق کی شان یہ ہے لیکن کہیں کوئی کلمہ بے ہودہ نہ ہوگا ۔ بات کا جواب پورا دیں گے ۔ کسی کی رو رعایت نہ کریں گے ۔ ان سے مداہنت نہیں ہوسکتی ۔یہ طریقہ ان کوپسند نہیں کہ گنگاپر گئے تو اس گنگا داس اور جمنا پر گئے تو جمنا داس آجکل لوگوں نے یہ شعر یاد کرلیا ہے ۔ حافظا گر وصل خواہی صلح کن باخاص وعام ٭با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام یہ حافظ کاشعر کہاجاتا ہےمگر یہ حافظ شیرازی کا نہیں ہے ۔ کوئی آنکھوں کا حافظ ہوگا ۔وہ تو ہندوستان آئے بھی نہ تھے رام رام کیاجانیں ۔ ہمارے ان علماء سے جب کوئی ملتا ہے تو پھر کبھی نہیں کہتا کہ متشدد ہیں ہاں مخالفین کے علماء متشدد بھی اور ان کاعلم بھی بہت ناتمام ہے ۔ ایک غیر مقلد کا قصہ ایک غیر مقلد مجھ سے کہنے لگے کہ ہمارے علماءسوائے آمین بالجہر اور رفع یدین کے کچھ نہیں جانتے اسی واسطے ہم معاملات کے مسائل آپ سے پوچھا کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ شخص بہت ہی سخت ہیں ان کے