ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
شکار میں نیت خیر واپسی میں رمایا شکار کے گوشت میں ایک تو مصلحت ہے کہ حلال خاص ہے اگر شکری یہی نیت کر لیا کریں تو تفریح کے ساتھ اجر بھی ہو ۔ مگر شکار صرف لہو ولعب رہ گیا ہے ۔ مقتدا بننے کی آفت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی رحمہ اللہ کا ذکر ہوا تو فرمایا تقلید کے متعلق علمی تحقیق میں تو ذرا ڈھیلے تھے ۔ یعنی تقلید کو واجب کہنے میں متشدد نہ تھے عملا کبھی حنفیت کو نہیں چھوڑا ۔ شہرت زیادہ ہونے اور مرجع بن جانے میں یہ بڑی آفت ہے کہ آدمی کو دعوی پیدا ہو جاتا عجیب نہ تھا کہ مولانا کو اجتہاد کا سا دعوی پیدا ہو جاتا اور تقلید سے نکل جاتے مگر ان پر فضل یہ ہو گیا کہ مولوی صدیق حسن صاحب سے گفتگو ہو گئی ۔ اس غیر مقلد کے مفاسد کھل گئے ورنہ چل نکلے تھے میں نے مولانا کو دیکھا ہے متقی پرہیز گار تھے اور نظر بہت تھی گو بہت عمیق نہ تھی اور بقدر ضرورت عمیق بھی تھی بڑی خوبی یہ تھی کہ مولانا کے سب کاموں میں للہیت تھی ۔ خدا ان کی مغفرت فرما دے ۔ کشف کو مدار افعال ٹھیرانا بعض اہل لکھنؤ کا ذکر ہوا تو فرمایا وہاں بعضے بڑے بدعتی ہیں ۔ ایک صاحب ذرا بچے تھے مگر وہ بھی اب بدلنے لگے بلکہ بدل ہی گئے ۔ ان میں شان علم کے خلاف یہ فعل ہے کہ وہ کشف کے بے حد قائل ہو گئے ہیں ۔ وہاں آجکل احکام کشف مترتب ہوتے ہیں ۔ اور کشف بھی کس کا مریدین کا ۔ مجھ سے ایک شخص نے وہاں کے واقعات بیان کئے ۔ میں نے کہا شیخ کو کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ پہچان لے کون مدعی حق پر ہے ۔ کون باطل پر میں نے تنبیہات وصیت میں ایک فہرست ان لوگوں کی شائع کی تھی جن کو قابل مشیخیت کہا جائے ۔ اسمیں ایک ایسے صاحب کا نام بھی تھا ۔ مگر اب دل کھٹا ہو گیا ۔ اور ایک ضمیمہ میں چاہا کہ بالتصریح ان کو خارج کردوں مگر اس آیت کی طرف خیال گیا ۔ ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم خوب فتنہ معلوم ہوا اور بعض احباب سے مشورہ بھی کیا ۔ انھوں نے بھی اتفاق کیا اس واسطے ابہام رکھا اور یہ لکھ دیا کہ طالبین میرے کہنے پر نہ رہیں خود بھی غور کرلیں ۔ پھر کسی سے بیعت ہوں ۔ مفتی