ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
جیسا ایک بادشاہ کا قصہ ہے کہ وزیر نے پیشن گوئی کی کہ کل کو ایسی بارش ہوگی کہ جو شخص اس کا پانی پیوے گا وہ پاگل ہو جائے گا ۔ بادشاہ نے برتنوں میں پانی بھر واکر رکھ لیا اگلے دن بارش ہوئی تمام لوگوں نے اس کا پانی پیا سب کے سب پاگل ہو گئے باد شاہ نے اور وزیر نے جو پانی پہلے سے بھرواکر رکھ لیا تھا وہ پیا اس لئے وہ جنوں سے محفوظ رہے ۔ اب لوگوں میں جلسے ہونے شروع ہوئے کہ بادشاہ اور وزیر پاگل ہو گئے ہیں ان کو مزول کردینا چاہئے باد شاہ نے وزیر سے کہا کہ اب کیا کرنا چاہئے وزیر نے کہا کہ تدبیر یہی ہے کہ ہم بھی بارش کا پانی پی لیں ۔ غرض بادشاہ اور وزیر نے بھی وہ پانی پی لیا اور جیسے اور پاگل تھے ویسے ہی وہ بھی ہو گئے ۔ اب لوگوں میں یہ جلسے ہوئے کہ بادشاہ اوروزیر اچھے ہو گئے اب ان کو معزول کرنے کی ضرورت نہیں تو جیسے ان پاگلوں نے بادشاہ اور وزیر کو اپنی طرح نہ ہونے کی وجہ سے پاگل سمجھا تھا اسی طرح اب بد دین لوگ دینداروں پر ہنستے ہیں ۔ کیونکہ بد دینی کا مذاق غالب ہو گیا ہے اس کی برائی ذہن سے جاتی رہی ہے اور دینداری کم رہ گئی ہے ۔ اگر کسی میں وہ ہے بھی تو ایک نئی سی بات معلوم ہوتی ہے ۔ ریل کے معاملات میں بعضی دفعہ مشاہدہ ہوا کہ حقوق ادا کرنے والے پر لوگ ہنستے ہیں ۔ حالانکہ ادائے حقوق جملہ عقلاء کے نزدیک بھی اور شرعا بھی مستحسن ہے اور اس کی ضد بالاتفاق قبیح ہے مگ طبائع میں خیانت اور حق تلفی کا مادہ غالب ہو رہا ہے ۔ اس واسطے حقوق پر بھی تعجب ہوتا ہے ۔ ایک دیندار کا قصہ ایک ڈپٹی صاحب ہیں جو بہت دیندار ہیں وہ اپنے لڑکے کا ٹکٹ لیتے تھے اور گھر والوں سے اس کی تحقیق کر رہے تھے کہ اس کی عمر کیا ہے ۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اس کی اتنی عمر ہے جس پر ٹکٹ پورا لگنا چاہئے ۔ آس پاس جو لوگ کھڑے تھے وہ سب ہنس رہے تھے کہ دیکھو اس بچہ پر آدھا ٹکٹ بھی کھپ سکتا تھا ۔ اگر آدھا ٹکٹ لیتے تب بھی کوئی نہ ٹوکتا یہ خودہی اپنا پیسہ پھینکتے ہیں ۔ اور ایک دیندار کا قصہ ایک اور شخص بی ۔ اے ہیں وہ ریل میں سوار ہوئے وقت کم تھا اسباب تلوار نہ سکے جہاں اترے وہاں انہوں نے کہا اسباب تول لو ۔ بابو نے دیکھا اور کہا جاؤ لے جاؤ ۔ انہوں نے کہا نہیں اسباب