ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
بغیر لوگ نہ مانیں گے فرمایا تو مجبوری ہے اس پر وہ لوگ چلے گئے فرمایا بس ان لوگوں کا اشتیاق وعظ کی وجہ سے تھا ۔ وعظ نہ ہونے کی خبر سنتے ہی سب اشتیاق جاتا رہا یہ کیا اشتیاق ہے بلا وعظ کے صرف ملاقات کا شوق ہوتو قابل شمار ہے ۔ بعد نماز عصر تفریحا قریب ڈیرھ میل کے پیادہ گئے چند آدمی بڑھل گنج کے وہیں بیابان میں آکر ملے اور نماز مغرب سب نے بیابان میں پڑھی اور ان لوگوں نے بڑھل گنج چلنے کے لے اصرار کیا فرمایا صبح کو میری عادت ہوا خوری کی ہے ۔ کل صبح کو بڑھل گنج کی طرف چلے چلیں گے وہاں لوگوں سے کہدینا تاکہ اب کوئی وہاں تکلیف نہ کرے ۔ اشراق اور چاشت الگ الگ ہیں مفتی صاحب نے پوچھا اشراق اور چاشت الگ نمازیں ہیں ۔ فرمایا ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے ۔ جب کہ آفتاب مشرق میں وہاں ہوتا تھا ۔ جہاں کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے ۔ اور ایک اس وقت پڑھا کرت تھے ۔ جب کہ مشرق کی طرف وہاں ہوتا تھا جہاں عصر کے وقت مغرب میں ہوتا ہے اس سے دونوں نمازوں کی تعیین اور دونوں کا وقت مستحب نکلتا ہے مستحب کی قید اس واسطے ہے کہ مطلق وقت علماء کے نزدیک دونوں کا ایک ہے اسی واسطے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اشراق میں چھ رکعت پڑھا کرے تاکہ اگر چاشت نہ ملے تو یہی کافی ہو جائے ۔ احقر نے پوچھا دو رکعت بھی چاشت کے لیے کافی ہیں فرمایا ان جملہ نوافل میں یہی ہے اشراق میں بھی چاشت میں بھی تہجد میں بھی ۔ اور زیادہ سے زیادہ چاشت کی آٹھ رکعت ہیں ۔ فتح مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت پڑھیں ۔ ام ہانی اس کی راوی ہیں ۔ مولوی عبد الغنی صاحب نے عرض کیا چاشت میں بارہ رکعت بھی ثابت ہیں فرمایا یہ اس وقت پر محمول ہیں جب کہ تہجد نہ ملا گویا قضا تہجد ہے ۔ 21 صفر 1335 ھ یوم دو شنبہ تقریبا 20 آدمی بڑہل گنج سے بعد نماز مغرب حاضر ہوئے جس میں بچے بھی تھے اور وہ لنگڑا آدمی بھی مع اپنے چھوٹے بھائی کے تھا ۔ یہ سب غریب لوگ تھے اکثر بدن پر روئی کا کپڑا بھی نہ تھا ۔ فرمایا سردی کے وقت بڑی تکلیف کی اور بچوں کو بھی دق کیا اور بہت چھوٹے بچوں کو دیکھ کر فرمایا آہا بچے بھی ہیں ۔ میں نے ابھی کہلا بھیجا تھا کہ کوئی صاحب تکلیف نہ کریں ۔ ہم خود صبح کو وہاں آئیں گے ۔ لوگوں نے