ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
اوڑھ کر پہنچے اور کھانا بھی یہ تھا کہ فقط دال ساگ پکایا تھا وہی بخوشی کھالیا ۔ ہماری طرف کے عوام میں بھی بناوٹ نہیں ہے خلوص تو بہت ہے اس طرف کے لوگ تو علماء سے حضو ر حضور کر کے خطاب کرتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ توتک بولتے ہین مگر یہ ازراہ تحقیر نہیں ۔ بلکہ اس وجہ سے کہ ان کو بناوت آتی ہی نہیں ۔ عوام علماء سے اس طرح بولتے ہیں ۔ اور علماء تحمل کرتے ہیں اور یہ بھی نہ صرف ظاہر ا بلکہ دل سے بھی برا نہیں مانتے اور بعض جگہ کے علماء اس قدر تنگ مزاج ہوتے ہیں کہ جناب اور حضور کہنے والے کے لہجہ میں اگر ذراقلت ادب کا شائبہ ہو جائے تو کشیدہ ہو جاتے ہیں ۔ ہماری طرف کے علماء میں یہ بات نہیں بلکہ سیدھے سادھے ہوتے ہیں اور بعض تو بالکل ہی بے نفس ہوتے ہیں ۔ قصہ حضرت گنگوہی ؒ بابت سادگی حضرت گنگوہی ایک دفعہ حدیث کا سبق صحن میں پڑھا رہے تھےے ۔ بارش آگئی سب طلباء کتابیں لے کر مکان کے اندر بھاگے مولینا نے کیا کیا کہ سب کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اٹھا کر لے چلیں لوگوں نے دیکھا کہ یہ حالت ہے تو کٹ گئے ۔ سبحان اللہ نفس کا تو ان لوگوں میں شائبہ بھی نہ تھا ۔ قصہ مولانا مظفر حسین صاحب مولینا مظفر حسین صاحب (میں نے مولینا کو نہیں دیکھا )اپنے معمولات کے ایسے پابند تھے کہ تہجد سفر میں بھی ناغہ نہ ہوتا ۔ اس وقت میں ریل نہ تھی ۔ سفر گاڑی میں ہوا کرتے تھے بہلی میں جاتے ہوتے اور ، اور لوگ بھی ساتھ ہوتے تو راستہ مین تہجد پڑھتے مگر بہلی کو ٹھیراتے نہیں اس خیال سے کہ رفقا کا راستہ کھوٹا ہوگا بلکہ تہجد اس طرح پورا کرتے کہ بہلی سے آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھ لیتے پھر آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھ لیتے پھر آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اسی طرح تہجد کو پور ا کر لیتے ۔ ایک دفعہ ایک بڈھا بوجھ لئے جاتا تھا مولانا کو اس پر رحم آیا اور اس کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیا جب اس کا گاؤن آگیا بوجھ اس کے حوالہ کر کے رخصت ہونے لگے بڈھا بولا کہ میں نے سنا ہے کہ اس طرف مولوی مظفر حسین آئے ہوئے ہیں تجھ کو کچھ خبر ہے مولانا نے فرمایا ہاں وہ بولا کہ اگر کہیں پاس ہو سنے تو مجھ کو بھی بتلانا فرمایا اچھا اس کے بعد کہا مظفر حسین میرا ہی نام ہے وہ بہت شرمندہ ہوا ۔اور پیروں میں گر گیا ۔ مولانا نے کہا بھائی شرمندگی اور معذرت کی کیا بات ہے ۔ ایک مسلمان کا کام میں نے کر دیا تو کیا ہو گیا ۔ پھر وہ