ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
چند روز متوکلانہ اور قطع تعلقی کے ساتھ بسر کی ۔ لوگوں سے ملنا جلنا بالکل چھوڑدیا ۔ حضرت قدس سرہ کا 1323 ھ میں وصال ہوگیا ۔مولوی محمد سمیع صاحب میرے بھائی کو شاہ گنج لے گئے وہاں ایک بزرگ تھے جو سلسلہ میں بڑے سید صاحب کے تھے ۔ میرے بھائی کو ان سے بڑا نفع ہوا تب وہ مجھ کو بھی ان کے پاس لے گئے انہوں نے اول درود شریف پڑھنے کو بتلایا اور اس کے بعد مراقبہ ان کے یہاں مراقبہ کا ہونا ضروری ہےپھر مراقبہ لطائف ستہ وغیرہ بتلایا ۔ پھر بیعت میں بھی داخل کرلیا مگر میں ہمیشہ حضور کی اجازت ہرکام میں لے لیا کرتا تھا ۔ ان کے بعض مریدوں میں پریشانی اور بدعقیدگی پائی گئی اس واسطے میرادل اکھڑگیا ۔ اور ان کے پاس جانا بند کردیا ۔ اس کے بعد بہت پریشانی بڑھ گئی اور یہ خیال ہوا کہ تو کہیں کا بھی نہ رہا ان پر دل نہ دل جما ۔ اور کہیں جانے کی اس واسطے ہمت نہ ہوئی کہ وہ ناراض ہوں گے عجیب کش مکش میں پڑ گیا ۔ میرے حواس خراب ہوگئے کہ کیا کروں اپنا سب سے بڑا مرجع حضور کو سمجتا تھا ۔ ایسے وقت میں سوا حضور کےکسی پر نظر نہ پڑی ۔مگر حضور تک جانہ سکا ادھر یہ خیال ستاتا تھا کہ بلاحاضری کے کچھ نہ ہوگا ۔ تاہم حضور کو خط لکھا اور اس بات کی اجازت چاہی کہ ۔۔۔۔صاحب کے پاس جاؤں آپ نے اس کی اجازت دی ۔ اجازت اور ہے مشورہ اور حضرت والا نے فرمایا اجازت اور چیز ہے اور مشورہ اور چیز ۔آپ نے اجازت کو مشورہ سمجھا میں اجازت تو عام طور سے دیتا ہوں کہ صلحاء کے پاس جانے میں کچھ حرج نہیں ہے اور مشورہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ بات بتاؤں کہ جو صرف غیر مضر ہی نہیں مفید بھی ہو اسکی مثال ہے کہ طبیب سے اجازت چاہتے ہیں کہ گنا کھالیں وہ اس کو اگر مضر نہیں دیکھتا تو کہدیتا ہے کھالو یہ اجازت ہے ۔ اور مشورہ یہ ہےکہ طبیب سے کہتے ہیں کہ آپ کے سپرد ہے جو مناسب تدبیر ہو بتلایئے وہ اس وقت ایسی تدابیر نہیں بتلائے گا ۔ جو غیر مضر اور غیر مفید ہوں بلکہ وہ تدابیر بتلائے گا جو مفید ہوں ۔اسوقت یہ کبھی نہ کہے گا کہ گنا کھاؤ بلکہ اور وقت کہےگا ۔گلو پیو اور شاہترہ پیو اور کونین کھاؤ اس وقت وہ آپ کا متبع نہ ہوگا ۔ بلکہ اپنی رائے کا متبع ہوگا خواہ آپ کی طبیعت کے خلاف ہو ۔ اور یہ اتفاقی بات ہے ۔ کہ اسکی رائے آپ کی رائے کے موافق آپڑے آپ نے مجھ سے اجازت چاہی تھی ۔ میں نے اباحت کے درجہ میں منع نہیں کیا ۔ مشورہ آج دونگا میرا اصول یہ کہ میں کسی کے کام میں دخل نہیں دیا کرتا ۔ جو لوگ مجھ سے کسی کام میں رائے لینا چاہتے