ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
کرے اور میں ابھی حساب بے باق کرکے اس کے ہاتھ کی رسید پیش کرتا ہوں ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ رات کو ملازمین سے فرمایا مناسب ہے ، کہ صبح کو سویرے کوچ ہو تاکہ مقام پر جلد پہنچیں ۔ صبح کی نماز پڑھتے ہی یہاں سے چل دیں ۔ بین ملازم نے عرض کیا ایسا ہی ہوگا ۔ بعد نماز فورا ناشتہ تیار ملے گا ۔ اس کے بعد برتن صندوق میں لاجے جائیں گے اور روانگی ہو جائے گی ۔ فرمایا ناشتہ کی بھی ضرورت نہیں بڑھل گنج میں کھانا سویرے ملے گا ۔ ناشتہ کی پھر کیا ضرورت ہے ۔ مگر صبح کو ناشتہ لایا گیا اور تھوڑا تھوڑا حسب عادت کھا کر چلنے کی تیاری ہوئی اور نماز بھی ذرا سویرے پڑھی گئی ۔ معلوم ہوا کہ ابھی سامان کی روانگی میں دیر ہے ۔ فرمایا مصلحت یہ ہے کہ ہم بطور ہوا خوری پیادہ چل دیں اور بڑھل گنج پہنچ جائیں اور یہ سب لوگ وہیں پر ہم سے آکر مل جائیں ۔ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ یہاں کے ملازمین پر تقاضا ہو جائے گا ۔ دوسرے بڑھل گنج والوں پر کھانے کا تقاضا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ وہاں کھانے میں کچھ دیر ہو چنانچہ خدام نے اسباب ملازموں کے سپرد کیا اور حضرت ہمراہ پیادہ پا روانہ ہو گئے ۔ روانگی از نرہر بجانب شاہ پور بروز بدھ 23 صفر 1335 ھ 6 بجے 20 دسمبر 16 ء قرآن شریف صندوق میں رکھ کر نیچے رکھنا چلتے وقت منشی اختر صاحب نے عرض کیا میرے بیگ میں قرآن شریف ہے اور بیگ گاڑی میں دیگر سامان کے ساتھ ہمارے نیچے رکھا جائے گا ۔ فرمایا حضور ﷺ ہجرت کے وقت مدینہ طیبہ میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے یہاں اترے تو انہوں نے مکان میں نیچے اتارا ۔ اور آپ اوپر رہے ۔ ایک دن ان کو رات کو خیال آیا یہ ادب کے خلاف ہے تو وحشت ہوئی اور اس وقت محاذات سے میاں بی بی دونوں ہٹ گئے اور صبح کو عرض کیا کہ حضرت مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا اور حضور ﷺ کو اوپر منتقل کر دیا اور نیچے خود آگئے اس سے محترم چیز کے نیچے ہونے کا جواز تو ثابت ہوا خود حضور ﷺ نے اس کو جائز رکھا تھا مگر حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے دل نے گوارا نہ کیا اور ادب اس کا مقتضی نہ ہوا ۔ بعض دفعہ الادب فوق الامر ہوتا ہے ۔ یہاں تو امر اباحت تھا ۔ اور بعض دفعہ امر وجوب ہوتا ہے اور ادب اس کو مانع ہوتا ہے ۔