ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
اے بسا امساک از انفاق بہ ٭ مال حق را جز بہر حق مدہ یہ حضرت حاجی صاحب کی تحقیق ہے اخلاق ذمیمہ کا ازالہ نہیں کرتے امالہ کرتے ہیں اگر ازالہ ہوجائے تو پھر ان کے پیدا کرنے کی ضرورت پڑے گی ۔ اس کی مثال انجن کی آگ کی سی ہے ۔ آگ کو بجھانا نہیں چاہئے ورنہ پھر جلانے کی ضرورت ہو گی ۔ آگ کو رکھ کر کل کو سیدھی کر دو یہ امالہ ہے ۔ لطیفہ اخلاق جبلی پر عمل نہ کرنا اختیاری ہے خواجہ صاحب نے پوچھا بد انتظامی بھی جبلی ہے فرمایا درجہ میں خلق جبلی ہے مگر اس کے مقتضاءپر عمل کرنا تو جبلی ہے ۔ بقراط کا قصہ ہے کہ اس کے زمانہ میں ایک شخص ایسا قیافہ شناس تھا کہ تصویر دیکھ کر اخلاق معلوم کر لیتا تھا چنانچہ بقراط کی تصویر دیکھ کر اس نے کہا یہ کس زانی کی تصویر ہے ۔ یہ خبر بقراط کو پہنچی تو کہا ،،از قیافہ اخلاق معلوم می شود نہ افعال خلق میل بہ زنا بیشک در من ست لیکن عفیف ام ،، مطلب یہ کہ میل بزنا درجہ میں خلق کے تو جبلی ہے اور غیر اختیاری ہے ۔ مگر درجہ میں فعل اور اکتساب کے اختیاری ہے ۔ چنانچہ میں اس سے بچا ہوا ہوں ۔ ایک جگہ سے الہ آباد کے امرود ،اور سنترے اور کیلا کی پھلیاں اور انگور آئے ۔ بعد ظہر حضرت والا نے اپنے ہاتھ سے چھیل چھیل کر کھائے اور کھلائے ۔ بعد عصر سید اکبر حسین صاحب جج کے مکان پر گئے ۔ تقریبا مغرب سے پاؤ گھنٹہ پہلے پہنچے ،اور ارادہ یہ تھا کہ مغرب کی نماز کے واسطے اٹھیں گے تو جج صاحب سے رخصت ہو لیں گے ۔لیکن جج صاحب علماءسے نہایت عقیدت اور محبت رکھنے والے ہیں ۔ اورنخور فاضل ہیں ۔ انہوں نے اس قسم کی باتیں چھیڑدیں کہ ان کا سلسلہ ختم ہی نہ ہوا ۔ اور درخواست کی کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں ۔ اور مسجد میں جانے کی مجھ میں ذرا طاقت نہیں اگر یہیں پر جماعت کر لیجئے تو میں بھی شریک ہو جاؤں اس کو حضرت نے منظور فرما لیا ۔ اور کوٹھی میں جماعت ہوئی ۔ جس میں تقریبا چودہ پندرہ آدمی شریک تھے ۔