ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
ہوتا ہے مسائل شرعیہ پر کلام کرنے کی مطلق اہلیت نہیں رکھتا اور جو دلائل اس نے سود کے جواز پر قائم کئے ہیں سراسر لغو اور حد تحریف تک پہنچے ہوئے ہیں ۔ پس کسی مسلمان کو اس پر عمل جائز نہیں ہے ۔ مسلمان دھوکہ نہ کھائیں ۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ان شاء اللہ ہم اس رسالہ پر تفصیلی تنقید کریں گے ۔ لیکن چونکہ یہ معلوم نہیں کہ تنقید کب تک کی جاسکے گی ۔ اور کب تک شائع ہوگی ۔ اس لئے اس وقت اجمالی اطلاع پر اکتفا کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان دھوکہ سے بچ سکیں ۔مؤلف رسالہ نے قرآن وحدیث میں تو تحریفیں کی ہی تھیں مگر ایک غضب کی جراءت اس نے یہ کی ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب مد ظلھم العالی کے ایک فتوی سے اپنے مدعا پراستدلال کیا ہے مگر ہم مسلمانوں کو مطلع کرتے ہیں کہ حضرت مولانامد ظلھم العالی ہرگز مؤلف کے غلط خیال سےمتفق نہیں ہیں۔اور وہ دو قسم کے سود کو مطلقا ناجائز اور حرام فرماتے ہیں ۔ خواہ دارالحرب میں ہو۔یا دارالاسلام میں ہو ۔ چنانچہ حضرت والا نے اپنے رسالہ ،، تخدیر الاخوان ،، میں اس کی حرمت کو نہایت بسط اور تفصیل کے ساتھ ثابت کیا ہے وہ فتوی جوکہ مؤلف نے حسن العزیز سےنقل کیا ہے سواس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں مؤلف کے مقصود کی تائید ہوکیونکہ اس میں تصریح ہے کہ بنک میں روپیہ جمع نہ کرنا چاہئے ۔ پس اگر حضرت مولانا سود لینے کی اجازت دیتے تو بنک میں روپیہ جمع کرنے کی کیوں ممانعت فرماتے اور اگر اس سے شبہ ہو کہ حضرت مولانا نے فرمایا ہے ۔ لیکن اگر جمع کردیا ہے تو بہتر یہ ہے کہ جو نفع وہاں سے ملے اسکو لے کر مساکین کو دیدے اور اگر کوئی شخص خود ہی مسکین اور قرض دار ہے تو بعض علماء کے نزدیک اس کو اپنی حاجت میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے ۔ ۔۔۔۔تو وہ شبہ اس لئے صحیح نہیں کہ اس سےسود کا جواز ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ حرمت ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ تصدق کاحکم املاک خبیثہ و اموال محرمہ میں ہوتا ہے نہ کہ اموال ظاہرہ میں ۔ پس اگر سودی معاملہ جائز ہوتا تو تصدق کاحکم کیوں کیا جاتا۔اور اپنے استعمال کےلئے مفلسی کی شرط کیوں لگائی جاتی ۔ اور گنجائش کو بعض علماء کی طرف کیوں منسوب کیاجاتا ۔پس ثابت ہوا کہ اس فتوی کو اپنے مدعا کی تائید میں پیش کرنا بالکل غلط ہے اور فتوی کاحاصل یہ ہے کہ سود لینا حرام ہے اس لئے بنک میں روپیہ نہ جمع کرنا چاہئے ۔ لیکن اگر کسی نے اس فعل ناجائز کا ارتکاب کر لیا ۔ اور سود لے لیا تو اس پر تصدق واجب ہے ۔ کیونکہ وہ مال خبیث اور واجب