ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
متشدد اور بیباک تھے کہ جوش میں آکر حضرت شیخ تک کو گالیاں دیں اور کہا یہ سب بدعتی تھے ۔ وہ اہلکار پیرزادے صاحب بڑے معزز اور بااختیار تھے وہ چاہتے تو روک سکتے تھے ۔ بلکہ تدارک بھی اس بیہودگی کا کر سکتے تھے ۔ ان کے سامنے انکے اجداد کو اور مقتداؤں کو اور ایسے مسلم شیخ کو گالیاں دی گئیں ان کو بہت طیش آیا مگر علم کا ادب کیا اور زبان سے کچھ نہ کہا حتی کہ جب ضبط نہ ہو سکا تو رونے لگے واعظ نے دیکھ لیا کچھ ایسا اثر ہوا کہ پگھل گیا اور تحقیق کیا کہ یہ کس جماعت سے ہیں ثابت ہوا کہ شیخ کی اولاد ہیں ۔ اس قدر اثر ہوا کہ واعظ نے کہا مجھے ان کے پاس لے چلو (اب ہدایت کا وقت آیا ) آیا ان کے پاس اور پیر پکڑ لئے اور توبہ کی کہ مجھ سے بڑی گستاخی ہوئی ۔ خاص گنگوہ میں یہ شان ہے اتنا انقیاد اتنا سکون ہے یہ سب حضرت شیخ کی برکت ہے ۔ بعد ظہر طلبہ کا اجتماع رہا بعد عصر لوگ حضرت والا کو مدرسہ جامع العلوم کی عمارات دکھانے کیلئے لے گئے اور درسگاہیں اور حجرے وغیرہ دکھائے حضرت والا نے ان کی طیب خاطر کے لئے معمولی الفاظ میں تعریف کی اس کے بعد اسی سفر میں ایک موقعہ پر فرمایا کہ مدرسہ جامع العلوم میں کسی وقت میں اسقدر عمارات اور شان و شوکت نہ تھی مگر تعلیم جو اصل مقصود ہے وہ اعلی درجہ کی تھی اور اب عمارات ہی عمارات ہیں اور اصل مقصود درجہ کفایت تک بھی نہیں مسجد کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیشن ہے بجلی کے متعدد لیمپ لگ گئے ہیں مسجد کیا ہے کھلونا ہے وہ انوار جو پہلے تھے ان کا پتہ بھی نہیں قریب مغرب کے مولوی محمد سعید صاحب کے مکان پر گئے وہ سخت بیمار تھے پردہ کرکے حضرت کو اندر مکان پر بلا لیا اور خدام باہر بیٹھے رہے ۔ قریب نصف گھنٹہ کے وہاں تشریف فرما رہے اور ایک دو جگہ اور بھی مکانوں میں لوگ لے گئے ۔ 3 ربیع الاول 1335 ھ روز جمعہ 29 دسمبر 1916 ء فجر کی نماز میں سورہ مدثر اور سورہ قیامہ پڑھی قرارداد یہ ہوئی تھی کہ جمعہ کی نماز قنوج میں ہو اس واسطے 8 بجے صبح کی ریل سے کانپور سے روانگی ہوئی حافظ ابو سعید خاں صاحب سے حضرت والا نے فرمایا کہ صبح کو کھچڑی پکوالیں ۔ تاکہ سویرے