ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
ڈال کے لائے ہوتے اور عدالت میں عذر کردیا ہوتا کہ ہم نے جوش میں ایسا کیا اور جوش ایک صنعت محمود ہے ۔ میں دیکھتا کہ عدالت اس وجہ سے ان کو معذور رکھتی ۔ یا نہیں ۔ جب حکام کے قوانیں کسی حالت میں حدود کو نہیں چھوڑتے تو شریعت الہی حدود کو کیوں چھوڑ دے گی ۔ جب ان کو کوئی حد شرعی بتائی جاتی تھی تو کہتے تھے بس مولوی لوگ نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں ۔ حکام سے جاکر کبھی نہ کہا کہ ہمیں کام کرنے سے روکتے ہو وہاں تو یہ کہتے کہیں کہ روکتے نہیں بلکہ کام کے لئے سلامتی اور خوش اسلوبی کا طریقہ بتاتے ہیں غضب اور ڈاکہ کی اگر اجازت دے دیں تو دینا درہم برہم ہو جائے پھر کہاں چندہ رہے اور کہاں چندہ دینے والے ۔ کیا احکام الہی میں مصلحتیں نہیں ہیں ۔ جیسا کہ امن قائم رکھنے والا قانون الہی ہے ایسا کوئی قانون ہو ہی نہیں سکتا ۔ غرض چندہ بالقان میں بہت لوگوں نے رائیں دیں یوں کرنا چاہئے اور یوں کرنا چاہئے میں نے کہا تری رائے سے کام نہیں چلتا ۔ طریقہ وہ تجویز کرو جس میں کوئی مفسد نہ نہ حکام سے بگاڑو نہ حدود شرعی چھوڑو ۔ مشورہ دے دے کر علماء کو فتنے میں نہ ڈالو ۔ بے عقلی کا جوش کس کام کا ۔ جوش میں نفع سے نقصان زیادہ ہوتا ہے مفتی صاحب نے عرض کیا ان کا خیال ہے کہ جوش ہی سے کام ہوتا ہے ۔ فرمایا ہاں یہ کسی درجہ میں مسلم سہی ۔ مگر اثمہما اکبر من نفعھما ۔ اس میں مفاسد بھی تو ہیں ۔ کان پور کے واقعہ میں لوگوں نے نرے جوش ہی سے کامل لیا اس واسطے اس کو اتنا طول ہوا ۔ ورنہ ہرگز نہ ہوتا ۔ حکام بالا کی یہاں سے میری نسبت بعضی باتوں کی تحقیقات آئی تھی ان میں سے ایک یہ بھی سوال تھا کہ کانپور کے فیصلہ کی نسبت میری کیا رائے ہے میں نے لکھوا دیا کہ یہ فیصلہ مذہب کے خلاف ہے مگر اس کا الزام ان لوگوں پر ہے جنھوں نے باوجود واقفیت احکام مذہبی ایسا کرایا ۔ واقعہ کان پور کی نسبت صحیح رائے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ بادب اس فیصلہ کو منسوخ ہونے کی درخواست کریں اگر کامیابی ہوتو شکریہ کے ساتھ قبول کریں ۔ اور اگر کامیابی نہ ہوتو صبر کریں ۔ شورش نہ کریں ۔ یہ طریقہ ہے کام کرنے کا نرے جوش کو میں پسند نہیں کرتا ۔