ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
دیکھتے کہ سب چیز تناسب کے ساتھ بچی ہے یا نہیں مثلا ایک روٹی بچی تو سالن بھی ایک ہی روٹی کے قابل بچا ہے یا کم زیادہ ہے اگر تناسب کے ساتھ نہیں بچا تو اس کو بیعت نہ کرتے اور کہتے تمھاری طبیعت مین انتظام نہیں تم سے کام کرنے کی کچھ امید نہیں ۔ لوگ اہل اللہ کو کبے وقوف اور بے حس سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے دماغ باد شاہوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ حضرت گنگوہی کی لطافت حس اور باوجود اس کے تحمل حضرت گنگوہی کو دیکھئے مولانا نہایت درجہ نفس مزاج تھے حتی کہ خدام کو حکم تھا کہ چراغ جلانے کے لئے مسجد میں دیا سلائی نہ گھسو ۔ چراغ کو باہر لے جا کر جلا کر لا رکھ دیا کر و ۔ گندھک کی بد بو گوارا نہ تھی اور ذکی الحس ایسے تھے کہ ایک روز مسجد میں عشاء کے لئے آئ اور عشاء دیر میں ہوتی تھی آتے ہی فرمایا آج کسی نے مسجد میں دیا سلائی جلائی ہے معلوم ہوا کہ مغرب کے وقت کسی نے دیا سلائی جلائی تھی ۔ اللہ اکبر اس حس کو دیکھئے کہ دیا سلائی جلنے سے جتنی گندھک ہوا میں مل جاتی ہے اتنی دیر میں اس کا بقیہ کا اثر رہا ہوگا ۔ اس سے تو اس قدر نفرت اور ساتھ ہی اس کے تحمل اس قدر کہ ایک خارشتی طالب علم حدیث کے دورہ میں شریک تھا وہ گندھک مل کے سبق پڑھنے بیٹھتا اور کبھی مولانا چیں بہ جبیں نہ ہوئے اور کسی وضع سے یہ ثابت نہ ہونے دیا کہ مولانا کو تکلیف ہوتی ہے ۔ طلبہ کا اس قدر احترام کرتے تھے ۔ دونوں واقعوں کے سننے کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ بے حس ہوتے ہیں ۔ بے حس ہوتے نہیں ۔ ہاں ۔ بے حس بن جاتے ہیں جہاں ان کو بے حس بننے کا حکم ہوتا ہے شور وغل نہیں مچاتے کسی کی شکوہ وشکایت غیبت نہیں کرتے ۔ اس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کو سمجھتے ہی نہیں عقل اور حس ہی نہیں رکھتے ۔ حالانکہ یہ بات نہیں حس وعقل تو دنیا سے زیادہ رکھتے ہیں مگر انہوں نے رسی اپنی ایک دوسرے کے ہاتھ میں دے رکھی ہے ۔ وہ جدہر چاہتا ہے ادہر لے جاتا ہے ۔ خواہ ان کی طبیعت کے موافق ہو یا مخالف ۔ موافقت ، مخالفت دونوں حالتوں میں یکساں رہتے ہیں کوئی اندازہ کر ہی نہیں سکتا ۔ کہ کون چیز ان کی طبیعت کے موافق ہے اور کون مخالف اپنی طبیعت ہی نہیں رکھتے ۔ مرزا جان جاناں کی نزاکت اور تحمل حضرت مرزا جان جانا ں ؒ کو دیکھئے یہ سب سے زیادہ نازک مزاج مشہور ہیں ۔ کسی عورت