ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
2 ربیع الاول 1345 ھ روز جمعرات بعد نماز مغرب حضرت والا نے اجازت چاہی تو جج صاحب نے فرمایا تھوڑی مٹھائی منگائی ہے ذرا توقف کیجئے تقریبا پندرہ منٹ میں مٹھائی سینیوں میں آئی ۔ پھر خدمت گار سے فرمایا اس کو مٹی کی دو ہانڈیوں میں کر دو ۔ تاکہ ہمراہ لے جانے میں دقت نہ ہو ۔ اس میں تخمینا ایک گھنٹہ لگا ۔ ادھر جج صاحب نے کچھ شعر و شاعری اور لطافت و ظرافت شروع کردی جس سے حضرت اور خدام کو اور جملہ حاضرین کو محو کر لیا فرمایا کہ آجکل زمانہ کی رفتار یہ ہے کہ جو کوئی اسلامی مدرسہ میں جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ عربی پڑھ کر کیا کرو گے (یعنی زندگی کیسے بسر کرو گے ۔ ) علم دین کو ذریعہ معاش بنانا ٹھیک نہیں فرمایا حضرت والا نے یہ خرابی اس کی ہے کہ لوگ عربی کو ذریعہ معاش بناتے ہیں ۔ اس علم کو تو جو کوئی پڑھے تو مقصود اصلاح نفس ہی ہونا چاہئے پھر یہ سوال پیدا نہ ہو گا ۔ رہی معاش کی بات سو اس کے لئے کچھ اور ہی ہونا چاہئے تجارت زراعت ،حرفت وغیرہ اور عربی کو ذریعہ معاش بنانے کے قصد سے پڑھنا ٹھیک نہیں صدقات سے غیر مسلم کیساتھ سلوک کرنا کیسا ہے ۔ مع ایک شبہ و جواب سوال ؟خیر خیرات سے غیر قوموں کے ساتھ سلوک کرنا درست ہے یا نہیں ؟فرمایا مسلم اور غیر مسلم میں اول وجہ ترجیح حاجت ہے مثلا ایک کافر مرا جاتا ہے اور ایک مسلمان بھی موجود ہے جس کو اتنی حاجت نہیں تو چاہیئے کہ مسلمان کو چھوڑ کر اس کافر کو کھلایا جائے ۔ پھر فرمایا اس کی تفصیل یہ ہے کہ صدقات واجبہ میں تو اہل اسلام ہی کی تعیین ہے وہ تو غیر مسلم کو دینے سے ادا ہی نہیں ہوتی اور صدقات نافلہ میں حاجت پر مدار ہے ۔حضور ﷺ منع فرمانا چاہتے تھے کہ صدقات مطلقا غیر مسلم کو نہ دیئے جائیں ۔ یہ آیت اتری ليس عليك هداهم ولاكن الله يهدي من يشاء الي قوله تعالي عليهم اس سے حضورؐ نے ارادہ ملتوی فرمادیا ۔ فرمایا حضرت والا نے کہ اس میں سوائے پرہیزگار کے بھی اطعام طعام سے نہی ہے تا بکافر چہ رسد ۔ جواب یہ ہے کہ علماء نے کہا ہے کہ