ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
ہیں حضور ﷺ نے تو وفد بنی ثقیف کا جو کہ کافر تھا اکرام کیا پھر یہ جواب جب حضرت گنگوہی نے سنا ۔ فرمایا غور نہیں فرمایا مولا نے اکرام کافر سے فتنہ نہیں ہوتا ۔ اور اکرام بدعتی سے فتنہ ہوتا ہے ۔ پھر اس شخص نے یہ خبر مولانا کو پہنچائی تو اس کو ڈانٹ دیا اور کہا جؤ تمہیں کیا پڑی یہ باہمی تعلقات تھے ان حضرات کے اور وہ شان علم تھی ۔ باہم علمی اختلاف رہا اور جب وہ بڑھنے لگا ۔ فورا اس کو روک دیا مولانا گنگوہی پر نقشبندیت کی شان غالب تھی اور مولانا پر چشتیت اور یہی چشتییت ۔ حضرت حاجی صاحب ؒ پر غالب تھی ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا اور حضرت میں اعتدال ہے فرمایا کیا کچھ نہیں ۔ پھر فرمایا کمال تو اہل کمال ہی میں ہوتا ہے ۔ مگر الحمد للہ ہم نے اہل کمال کو دیکھا تو ہے اور اب بھی ان کے قائم مقام حضرات غنیمت ہیں ؎ چونکہ شد خورشید دمارا کرد داغ چارہ نبود بر مقامش از چراغ بعض متاخرین متقدمین سے افضل ہیں پھر فرمایا کہ ظاہر میں ہے تو بے ادبی مگر بعضے متاخرین بعضے متقدمین سے افضل ہیں کمال کسی پر ختم نہیں ۔ یہ نبوت تھوڑا ہی ہے جو ختم ہو جائے ۔ مجھے مولانا گنگوہی کے ساتھ زیادہ عقیدت ہے بہ نسبت مولانا کے اور بعض لوگ اس کے بر عکس خیال رکھتے ہیں ۔ مولانا گنگوہی کی شان سلف کے بہت مشابہ ہے زمانہ میں متاخر سہی مگر حالات وہی ہیں ۔ جو سلف کے تھے جیسے حضرت حاجی صاحب کہ اکابر سلف کی سی شان رکھتے تھے مثل جنید وغیرہ حضرات کے ۔ حضرت حاجی صاحب ک بعض حالات حضرت حآجی صاحب کو وہ حالات حق تعالی نے دیئے تھے کہ نظیر ملنا مشکل ہے اور حضرت کے حالات شروع ہی سے عالی تھے ۔ حضرت جوانی میں ہندوستان سے تشریف لے گئے ۔ اسی زمانہ میں حضرت کی شرت امراء اور غربا ء اور بیگمات تک میں ہو چکی تھی ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء حالانکہ حفظ ضامن علی صاحب وغیرہ حضرت کے معاصرین میں بھی بعض کمالات زائد تھے ۔ ان حضرات کے سامنے حضرت سے کرامتیں بھی صادر ہوئی تھیں ۔ ایک دفعہ حضرت کے یہاں مہمان بہت سے آگئے کھانا کم تھا ۔ حضرت نے اپنا رامال بھیج دیا کہ اس کو کھانے پر ڈھانک دو ۔