ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
کہ حضرت والا 28 دسمبر کو کام پور پہنچیں گے ۔ حضرت نے یہ سن کر نہایت تعجب کیا کہ اب تک بھی تاریخ معین نہیں ہوئی کہ کان پور کب پہنچیں گے اور مہینہ پہلے تو کچھ بھی پتہ نہ تھا یہ تعین تاریخ کیا ( یہ خبر بالکل صحیح ہوئی اور ٹھیک 28 دسمبر 1916 ء کو کان پور پہنچے ۔ حالانکہ درمیان میں کئی جگہ تجاویز میں ردو بدل بھی ہوا ۔ عامی کے سامنے دلیل نہ بیان کرنا چاہئے ۔ ایک شخص جامع مسجد سے بنگلہ تک ساتھ آیا اور بیٹھتے ہی کہا مجھے ایک بات پوچھنی ہے فرمایا پوچھئے ۔ کہا فاتحہ خلف الامام پڑھنا کیسا ہے فرمایا جائز نہیں ۔ کہا وجہ کیا ہے فرمایا ہم جو کچھ بتادیں گے اس کا صحیح ہونا کیسے جانو گے ۔ کہا ہم آپ کا اعتبار کریں گے فرمایا جواب اس کا مجھے بہت بعد میں دینا ہوگا وہ یہیں دیئے دیتا ہوں کہ جب ہمارا تمھیں اعتبار ہے اور ہمارے اعتبار پر دلیل کو صحیح مان لوگے تو ابھی سے جو بتلایا ہے اس کو صحیح مان لو اور اعتبار کر لو ۔ اخیر میں جاکر بھی تو یہی کہنا پڑے گا اور میں پوچھتا ہوں کہ کوئی وجہ بتاؤ اعتبار کرنے کی ۔ ایک پردیسی راہ چلتے آدمی کا اعتبار ایک دینی مسئلہ میں کیوں کر لوگے ۔ کہا آپ معزز آدمی ہیں آپ خلاف نہیں کہیں گے ۔ فرمایا معزز تو کلکٹر صاحب ہیں ان سے پوچھ لو اور ظاہر ہے اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اول تو ہم معزز نہیں کیا بات اعزاز کی دیکھی اور اگر ہوں بھی تو کلکٹر صاحب کی برابر معزز نہیں ۔ بہر حال کلکٹر صاحب کے قول کو ہمارے قول پر ترجیح ہو گی ۔ یہ سخت غلطی ہے کہ راست چلتے آدمی سے مسئلہ پوچھا جائے ۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ عمل کرنا نہیں ہے اور دین کی پرواہ نہیں ہے ۔ دین سے محبت ہو تو کیا اس کے بارے میں راستہ چلتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کوئی اپنے گھر بار کو بھی کسی راہگیر کی سپر دگی میں دیدیتا ہے وہ شخص خاموش ہوا ۔ مگر چہرہ سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اور بھی کچھ سوال کرنا چاہتا ہے حضرت نے فرمایا میں کام کی بات بتاتا ہوں یہ مجھے آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف چھیڑ چھاڑ منظور ہے تحقیق منظور نہیں ۔ ورنہ آپ کے عمل کے لئے اتنا ہی جواب کافی ہے کہ جائز نہیں وجہ پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ کہا ہماری بستی میں اور بہت لوگ اختلاف رکھتے ہیں ۔ اگر وجہ معلوم ہوتو ہم ان کو سمجھا تو سکیں اور امید ہے کہ کسی کو ہدایت ہو جائے ۔ جو شخص خود عالم نہ ہو اس کو دوسرے کی ہدایت ضروری نہیں ہے فرمایا یہ مسئلہ بھی یاد رکھئے کہ جو شخص خود عالم نہ ہو اس کو دوسروں کی ہدایت ضروری نہیں ۔ کسی