ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
کسی پر اصرار خلاف طبع نہ چاہئے لوگوں نے وعظ کے لئے اصرار کیا تو فرمایا طبیعت محمل نہیں یہ سفر اسی غرض سے کیا گیا ہے کہ آرام ملے ۔ لوگوں نے پھر اصرار کیا تو فرمایا سچی بات کی قدر نہیں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نخرہ کرتے ہیں وعظ تو ہمارا فرض منصبی ہے ۔ یہ کام تو ہم کو بلا آپ کو خواہش کے بھی کرنا چاہئے ۔ اور خوشا مد کرانے کی کبھی عادت نہیں ہوئی مگر عذر ہے کیا کیا جائے اصرار کی عادت بری ہے ہمیشہ خیال رکھئے کہ فرمائش کر کے واعظ کی رائے معلوم کر کے کچھ اصرار نہ چاہئے ۔ مہمان کے لئے کھانا اس کے مذاق کے موافق ہونا چاہئے کھانا کھاتے میں فرمایا خدا جانے یہ کیا رواج ہے کہ مہمان کے لئے کھانا اپنے مذاق اور خواہش کے موافق پکاتے ہیں ۔ حالانکہ موٹی سی بات ہے کہ جب اس سے خوش کرنا مہما ن کو مقصود ہے تو اس کے مذاق کے موافق ہونا چاہئے ورنہ اس کی خوشی تو نہ ہوئی ۔ اپنی خوشی ہوئی ۔ اس کو تابع بنایا اورخود متبوع بنے کھانے میں کھانے والے کے معمول کو دیکھنا چاہئے ۔ اگر ذوق شوق نہ مانے تو اس کے پورا کرنے کی صورت یہ بھی تو ہے کہ اپنے خوشی کے کھانے بھی پکائے جائیں ۔ مگر اس کے مذاق کا کھانا بھی ضرور ہونا چاہئے ورنہ بعض وقت وہ بالکل معذور رہتا ہے ۔ فرض کرو کہ کسی کو چاول نقصان دیتے ہیں تو یہ کیا انسانیت ہے کہ چاول بھی اس کو ضرور کھلائے جائیں ۔ اگر اس کو چاولوں سے نقصان ہوا تو کیا مہمانی ہوئی ۔ مگر رسوم ایسے غالب ہوئے ہیں کہ اس کی کچھ پرواہ نہیں میرے نزدیک مہمان کو وہی چیز کھلانا چاہئے جو اس کو مرغوب ہو ۔ لیکن کہیں ایسا نہیں کیا جاتا ۔ رواج کے پیچھے خلاف طبع کیوں اختیار کیا جائے بس نہ عقل سے بحث رہی نہ آسائش سے ۔ رواج ایک چیز رہ گیا ہے کہ اسی پر سب مرتے ہیں ۔ دیکھئے گھروں میں بھی جہاں اپنا اختیار ہے کچھ تکلیف وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔ وہاں بھی آسائش پر اور طبیعت پر رواج ہی کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ مثلا رواج ہے کہ دو وقت ایک ہی چیز نہیں پکاتے ۔ بعض دفعہ گھر میں مجھ سے پوچھتی ہیں کیا پکائیں اور میں جو چیز مرغوب ہوتی ہے بتاتا ہوں ، تو کہتی ہیں صبح تو یہ پکائی ہی تھی ۔ دونوں وقت ایک چیز بھی کوئی پکاتا ہو گا ۔ یہ کیا خرافات ہے ۔ جس چیز کو طبیعت چاہی کھا پکالی ۔