ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
نے اس کی اکبریت کو قائم کر رکھا تھا ۔یہ دنیا میں تو ہے ہی میں ایک نازک بات عرض کرتا ہوں کہ اکبر دین بھی اصاغر ہی کی وجہ سے اکابر ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی تشہیر سے اکابر بنے ہوئے ہیں یہ کام تو جھوٹے اور متصنع اکابر کا ہے ۔ بلکہ جو لوگ واقعی اکابر دین ہیں ان پر بھی باطنی برکات اصاغر ہی کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں ۔ چنانچہ بعض لوگوں کو اجازت دے دی جاتی ہے ۔ اور فورا ان کی حالت بدل جاتی ہے ۔ لوگوں حسن ظن سے اس کے اوپر برکات نازل ہوتی ہیں اور اصلاح ہو جاتی ہے ۔ مولانا محمد یعقوب صاحب فرماتے تھے ہم بس اپنے مجمع میں بڑے ہیں اور باہر نکل کر کچھ بھی نہیں ۔ جیسے روڑ کی کالج کے کاریگر کہ جب تک کالج کے اندر ہیں سب کام کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہاں مشین موجود ہے اور وہاں سے نکلے تو کچھ بھی نہیں گویا ہاتھ پیر وہیں رکھ آئے ہیں ۔ مطلب یہ ہے مولانا کا کہ ہم سے جو کچھ برکات اپنے مجمع کو پہنچتے ہیں وہ ہم کو حق تعالی کی طرف سے طالبین ہی کی بدولت عطا ہوتے ہیں ۔ یہی حالت ہے تمام امت محمدیہ کی ۔ اس امت کی مثال اس کی مثال یہ دی گئی ہے ۔ هم كحلقة واحدة مفرعة لا يدري اين طرفاها ۔ يعني تمام امت ايسي هے جیسے ایک کڑا ڈھلا ہوا کہ کسی جگہ اس میں کنارا نہیں ۔ ہر جگہ کو کنارا بھی کہہ سکتے ہیں اور وسط بھی اور ابتدا بھی اور انتہاء بھی بعض وقت مضامین کا جوش مجمع میں صرف ایک طالب کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ برکات کا طالب کی وجہ سے نزول ایک واعظ کا قصہ ہے کہ وعظ کہہ رہے تھے اور مضامین عالیہ بیان ہو رہے تھے ان کو خیال ہوا کہ مجھے خوب آمد ہوتی ہے ۔ بس مجمع میں سے ایک شخص اٹھ گیا اور ان کی آمد بند ہو گئی ۔ یہ ان کا فیض نہ تھا بلکہ اس کا اثر تھا اور یہ بات بہت ہی ظاہر اور مشہد ہے بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک مضمون کتاب کا مطالعہ کرتے وقت سمجھ میں نہ آیا پھر استاد نے تقریر کی اور سمجھ میں نہ آیا مدتوں قلب کو اس میں انشراح نہ ہوا اور جب کسی کو پڑھانے بیٹھے تو فورا سمجھ میں آگیا ۔ طلبا فارغ التحصیل ہو جاتے ہیں اور لیاقت ان کی معمولی ہوتی ہے کتابوب پر عبور نہیں ہوتا مگر پڑھانے بیٹھتے ہیں تو ایسا پڑھا لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضامین