ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
جیسے میزبان بٹھائے اور جس طرح کھانا رکھے رکھنے دیجئے آپ کو اس سے کیا بحث ، بات یہ ہے کہ آپ اپنے کو بڑا جانتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں ۔ اس لئے ہر بات میں دخل دیتے ہیں ۔ ساری خرابی اپنے کو بڑا جاننے کی ہے ۔ اگر آدمی اپنے کو سب سے پست جانے تو ہر کام کی جرات نہ کرے گا ۔ (پھر ان صاحب نے راستہ میں کہا کہ حضرت یہ مسئلہ معلوم نہ تھا اس پر فرمایا اس کا گر یہ ہے کہ ہر کام سوچ کر کرے بے سوچے نہ کرے پھر غلطی بہت کم ہو گی ۔ اس طرح ہر کام میں سوچے گا تو سوال کرنے کی نوبت بھی کم آئے گی ۔ بہت سی باتیں خود ہی حل ہو جائیں گی ۔ ہمیشہ خیال رکھئے ان باتوں کا بعض وقت میزبان کو بعضی حرکت مہمان کی بہت نا پسند اور ناگوار ہوتی ہے ایسا نہیں چاہئے اور آپ میرے پاس اتنے دنوں سے ہیں مگر آپ کو چھوٹی باتوں کی بھی خبر نہیں آپ صرف نفل پڑھنے کو مقصود سمجھتے ہیں ۔ ملفوظات سفر ہمیر پور 14/ جمادی الاول 1337ھ توسل کی حقیقت واقعہ : ایک صاحب نے دریافت کیا کہ توسل کی کیا حقیقت ہے ۔ اس پر فرمایا ۔ ارشاد : منقول تو دیکھا نہیں مگر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ کسی شخص کا جو جاہ ہوتا ہے اللہ کے نزدیک اس جاہ کی بقدر اس پر رحمت متوجہ ہوتی ہے توسل کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اے اللہ جتنی رحمت اس پر متوجہ ہے اور جتنا قرب اس کا آپ کے نزدیک ہے اس کی برکت سے مجھ کو فلاں چیز عطس فرما کیونکہ ہمیں اس شخص سے تعلق ہے اسی طرح اعمال صالحہ کا توسل آیا ہے حدیث میں اس کے معنی بھی یہ کہ اس عمل کی جو قدر ہے حق تعالی کے نزدیک اور ہم نے وہ عمل کیا ہے اے اللہ برکت اس عمل کے ہم پر رحمت ہو ۔ پس معنی یہ ہیں کہ وہ عمل رحمت کا سبب ہے ، اور واقع میں سبب بھی اور یہ توسل عمل کے ساتھ حدیث سے بھی ثابت ہے ( ایک صاحب نے عرض کیا کہ اعمال کا واسطہ نہ دے تو حرج ہے اس پر فرمایا ) واجب تو نہیں جو شبہ ہوا ۔ ایک جواز کی صورت بتلائی ہے ۔ رجاء افضل ہے یا خوف پھر اس شبہ کو اپنے اعمال کے توسل میں ان کے مقبول ہونے کا گمان لازم آتا ہے دفع فرمایا