ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
کرایہ کا حساب نہ ہو سکتا ۔ کام کو نہ ٹالنا حضرت والا نے احقر سے پوچھا اس وقت تک وقت روانگی میرٹھ سے تیرا کیا خرچ ہوا ۔ عرض کیا آٹھ آنہ مع کرایہ تا گورکھپور ۔ مفتی صاحب سے فرمایا گیارہ روپیہ مجھ کو دیدو ( خرچ ان کے سپرد تھا ۔ ) مفتی صاحب نے حاضر کئے وہ احقر کے سامنے رکھ کر فرمایا اس کو قبول کر لیجئے ۔ احقر نے عرض کیا مجھے کچھ تکلف تو نہیں حضرت میرا سفر خرچ دینے کا وعدہ ہی فرمایا تھا ۔ مگر جلدی کیا ہے ۔ فرمایا میری عادت ہے کہ جو کام کرنا ہے اس سے جلد سے جلد قلب کو فارغ کر لیتا ہوں ۔ اس وقت کل خرچ کا اندازہ نہیں ہو سکت ورنہ سب حاضر کرتا اس کو رکھ لیجئے آگے کا حساب پھر دیکھا جائے گا ۔ خشیت کیلئے حکم کی ضرورت ہے ۔ ریل میں ایک عورت اپنے بھائی کے ساتھ بذریعہ پاس سفر کر رہی تھی ٹکٹ کلکٹر نے اس پاس میں کوئی غلطی نکال لی مرد بہت حجت کے بعد مان گیا ۔ لیکن عورت برابر منہ زوری کرتی رہی ۔ حضرت والا نے فرمایا خشیت کے لئے بھی علم ٓکی ضرورت ہے چونکہ مرد کو اپنی غلطی کا علم ہوگیا ۔ اسواسطے وہ ڈر گیا اور خاموش ہوگیا ۔ اور عورت ناقص العقل ہوتی ہے غلطی کا علم اس کو نہ ہوا اس واسطے خاموش نہ ہوئی ۔ اہل اللہ کا رعب ریل میں بھیڑ اس قدر تھی کہ آدمی کھڑے کھڑے جا رہے تھے اور تمام راستے لڑائی دنگا ہوتا رہا ۔ اور ایک کے اوپر چڑھ چڑھ کر بیٹھتے رہے ۔ مگر قدرت خدا کہ حضرت والا کے پاس کوئی نہ آتا ۔ ایک بنچ پر حضرت والا کا بستر لگا دیا تھا ۔ اور ایک مفتی صاحب کا بستر تھا اور نیچے پنجوں کے درمیان میں احقر نے اپنے لیٹنے کے لئے کپڑا بچھا لیا تھا ۔ کہیں کہیں اتنا تو ہوا کہ پیر پوری طرح نہ پھیلائے جاسکے ۔ مگر یہ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ حضرت والا سے اٹھ بیٹھنے کو کہہ سکے ۔ حتی کہ ایک جگہ ایک سپاہی نے آکر زبردستی اور مسافروں کو بھر بعض لیٹے ہوئے آدمیوں کو اٹھایا بٹھا دیا مگر اس کی بھی ہمت ہمارے پاس آنے کی نہ ہوئی حالانکہ حضرت والا کا اصول یہ ہے کہ مسافروں پر ریل میں تنگی نہیں کرتے اپنے اوپر تنگی گوارا کر لیتے ہیں خود حضرت اٹھ کر بیٹھ جاتے مگر