ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
سے منع کیا گیا تو جو کتابیں صرف الحاد اور زندقہ کی ہوں ان کا حکم ظاہر ہے اور حضرت عمر رضی اللہہ عنہ کو منع فرمایا گیا تو ہم کیا ہیں اور نہ معلوم کیوں دیکھتے ہیں لوگ اپنے یہاں کیا نہیں ہے اپنے یہاں تو اپنے علوم ہیں کہ تمام عمر بھی ان کے دیکھنے سے فرصت نہ ملے اپنی کتابوں کو دیکھئے اور اپنی اصلاح کی فکر کیجئے اسی سے فرصت ملنا مشکل ہے ۔ رہا جی لگنا سو میں کہتا ہوں کہ یہ صرف حیلہ ہے اور لا پرواہی کی دلیل ہے ورنہ جناب اگر کسی مقدمہ فوجداری کا قائم ہو جائے اور وہ سن پائے کہ قانون میں کوئی نظیر میرے لیئے مفید ہے تو اگر چہ قانون کے دیکھنے میں جی نہ لگے بلکہ سمجھ میں بھی نہ آئے مگر جان ماریگا اور دیکھے گا اس وقت یہ نہ ہوگا کہ بجائے قانون کے دلچسپ کتاب مثلا الف لیلی کو لے بیٹھے ۔ اس وقت تو دل کو لگی ہو گئی ۔ ہم لوگوں کو دین کی طرف سے بیفکری بہت ہے ۔ یہ خرابی اس کی ہے ذرا ، ذرا سے عذر ترک دین کے لئے کافی ہو جاتے ہیں ۔ بے قاعدہ مناظرہ مضر ہے پھر فرمایا آجکل تو لوگوں نے یہ وتیرہ اختیار کیا ہے کہ ذراسا کسی نے شبہ کیا یا کسی کتاب میں شبہ دیکھ لیا اور بس اس کے حل کرنے کے درپے ہو گئے ۔ یہ خرابی آداب مناظرہ نہ جاننے کی ہے کہ وہ کام ذمہ لے لیتے ہیں جس کی ذمہ داری عقلا ہمارے ذمہ نہیں پھر اس میں خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں اور اخیر یہ ہوتا ہے کہ کام چلتا بھی نہیں ۔ اور اپنے اوپر بات آجاتی ہے جب کسی سے کشتی ہو تو عقل کی بات یہ ہے کہ اس کو ان اصولوں کے موافق پکڑ کر گرادیا ہے جائے جو فن کشتی میں مقرر ہیں اور تجربہ سے مفید ثابت ہوئے ہیں ۔ اور اگر مخالف کے کہنے کے موافق چلا جائے مثلا وہ کہے کہ جب جانیں اس طرح کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دو کہ میں تو داؤں کرو ں اور تم مطلق ہاتھ پیر نہ ہلاؤ تو اس کا انجام تو سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہوتا کہ وہ تم کو چاروں خانے چت مارے اور سر مجمع ہنسائی ہو بتایئے اگر کوئی ایسا کرے اور پچھڑ جائے تو کیا یہ کہنےکی گنجائش ہے کہ فن کشتی کچھ بھی چیز نہیں دیکھو کچھ بھی کام نہ آیا اور پچھڑ گئے نہیں بلکہ فن سے کام ہی نہیں لیا گیا ۔ اسی طرح ہمارے بھائی ہیں کہ قاعدہ سے چلتے نہیں اور اسی کو بہادری سمجھتے ہیں کہ جیسےمخالف کہے ویسے ہی جواب دینا چاہئے ۔ فن مناظرہ مستقل فن ہے ۔ اور اس کے اصول عقلی ہیں جن کو مخالف بھی مانتا ہے ۔ ان کو چھوڑ کر جب مناظرہ کیا جائے گا فضول اور بے سود ہو گا ۔ دیکھے فن مناظرہ کا اصول ہے کہ بینہ مدعی پر ہوتا ہے جب تک اپنے مدعا کو ثابت نہ کرے اس کی تردید کی حاجت نہیں وہ خود باطل ہے ۔ ابھی وجود میں ہی نہیں آیا معدوم کس کو کہا جائے ۔ یہ بات کہ کوئی