ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
بسم اللہ الرحمن الرحیم حامدا ومصلیا خیر العبور سفر نامہ گورکھپور کہ جزوے از حسن العزیز است اما بعد ۔ احقر اور محمد مصطفی بنجوری عرض سا ہے کہ مدت دراز سے خاکسار کو یہ تمنا تھی کہ کسی موقعہ پر اپنے پیر ومرشد زبدۃ المحقیقن مجدد الملۃ والدین حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب مدظلہ کے ساتھ سفر کرے تاکہ حضرت والا کے اخلاق ومعاملات ومعاشرت ومعمولات سے استفادہ کر سکے مگر اس آرزو کے پورا ہونے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مانع موجود رہا ۔ اتفاقا محرم 1335ھ می بر وقت تشریف آوری حضرت والا کے میرٹھ میں احقر نے یہ خواہش ظاہر کی ۔ فرمایا بہت قریب ایک سفر گورکھپور کا ہونے والا ہے اگر چلنا ہے تو یہ موقع ہے اور خرچ سفر تیرا ہمارے ذمہ احقر کو جو کچھ خوشی ہوئی بیان نہیں کر سکتا اور باوجود کثرت علائق اور بعض خواص عوائق کے تہیہ کر دیا اور تاریخ 16 صفر بدھ مطابق 13 دسمبر 1916ء کو میرٹھ مراد آباد پہنچ کر حضرت کے ہم رکاب ہو گیا ۔ جن لوگوں نے حضرت والا کی صحبت اٹھائی ہے یا ایک دفعہ بھی زیارت کی ہے وہ بخوبی اس بات کی تصدیق کریں گے کہ حضرت والا کی ذات با برکات کو حق تعالی نے سچ مچ حکیم الامت بنایا ہے اور حضرت کوئی قول وفعل بلکہ ادنی حرکات وسکنات بھی حکمت اور گہری حکمت سے خالی نہیں اور بلاشک وشبہ وجود با جود اس کا مصداق ہے اے قبائے رہنمائی راست بر بالائے تو علم وحکمت اشرف از گوہر والائے تو احقر کا ارادہ خود ہی پہلے سے تھا کہ اس سفر کے تمام واقعات وملفوظات قلم بند کرے اور اس قصد کو بعض صمیم احباب مثل خواجہ عزیز الحسن صاحب اور میرے معصوم علی صاحب کی فرمائش نے اور بھی موکد کر دیا ۔ اور کاغذ اور پنسل کافی مقدار میں ہمراہ لے لیا اور تمام سفر میں اسی کے سر رہا کہ حتی الامکان کسی ملفوظ اور واقعہ کو قلمبند کرنے سے نہ چھوڑے اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ہر وقت کاغذ پنسل پاس رہتا افسوس ہے کہ قلم زبان کا ساتھ پورا پورا نہیں دے سکتا ورنہ ایک لفظ بھی حضرت والا کا ضائع نہ جانے دیتا ۔ تاہم