ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
دیتا ہوں اور آپ پر ہی فیصلہ رکھتا ہوں ۔ اس سے بخوبی واضح ہوجائے گا کہ علماء متعصب ہیں یا نہیں ۔ تصلب اور تعصب کیلئے ایک مثال وہ مثال یہ ہے کہ ایک شریف اور معزز آدمی کو یوں کہاجائے کہ سنا ہے تمہاری ماں اول رنڈی تھی پھر نکاح کرلیا اور اس کے بعد تم پیدا ہوئے ۔ کیا یہ بات صحیح ہے سوا ول تو اس میں عیب کیا ہے کہ ایک عورت رنڈی تھی اس نے توبہ کرلی اور نکاح کرلیا اسکے بعد جو اولاد ہوگی وہ تو حلال کی ہوگی ۔ اس سے اس شخص کے نسب میں کچھ نہیں ہوتا اس سے قطع نظر اگریہ بات واقعی ہوتو تب تو ایک واقعی بات کے تحقیق کرنے میں کچھ بھی حرج نہیں اب میں پوچھتا ہوں آپ سے کہ میں فرضی صورت کو چھوڑ کر یہ صورت اختیار کرتا ہوں کہ یہ بات واقعی ہواور ایک مجمع میں بیان کی جائے تو کیا وہ شخص ٹھنڈے دل سے اس واقعہ کو سن کر جواب دیگا ۔ یا جوش کے مارے آپے میں نہ رہے گا ۔ بلکہ اگر اس پرجوش نہ ہوتو آپ کے نزدیک یہ داخل بیغرتی ہوگا یا نہیں اور اگر آپ انکار کریں تو ہم امتحان کرکے دکھاویں بتلائیے کہ اس کو جوش کیوں ہوگا اوریہ جوش کا ہونا آپ کے نزدیک بجا کیوں ہے اور جوش کانہ ہونا بے غیرتی کیوں ہے ۔ اگر وہ شخص واقعی با ت کہتا ہے تب تو سچی بات پر غیظ کاآنا کیا معنی ۔ اور اگر جھوٹی بات کہتا ہے تب بھی جوش کے کچھ معنی نہیں ۔ خداکا شکر کرنا چاہئے کہ اس کی ماں میں یہ عیب نہیں اور اس کہنے والے کو نرمی سے اور دلسوزی سے اور جن الفاظ کو وہ پسند کرے ان الفاظ سے سمجھادے کہ بھائی یہ بات غلط ہے ۔ اور اگر نہ مانے تو اس کے حال پرچھوڑ دینا چاہئے اور اس سے کچھ تعرض نہ کرنا چاہئے تو اس پرجوش ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اپنی ماں کی عزت ہر شخص کے دل میں ہوتی ہے اس کی نسبت کوئی برالفظ سننا قطع نظر واقعیت اور غیر واقعیت سے گوارا نہیں ہوتا ۔ بس ہم کہ ہماری نظر میں دین کی عزت ماں سے زیادہ ہے ۔ کوئی ناشائستہ لفظ دین کی نسبت سننا گوارا نہیں ہوتا ۔اورفورا جوش آہی جاتا ہے اورجوش نہ آنے کو ہم بے غیرتی سمجھتے ہیں ۔ سوال کی طرح سوال کرو تب دیکھو ہم ناراض ہوتے ہیں یا نہیں ۔خود ہماری کتابوں ہی میں اللہ ورسول کی نسبت ایسے سوال لکھے ہوئے ہیں جن سے توحید اور رسالت اڑی جاتی ہے اورعلماء نے ان کے جواب نہایت متانت سے دیئے ہیں ۔ غیض وغضب کاکچھ کام نہیں ۔ ان سوالوں