ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
چھوٹا اور ایک متوسط ، دو ہونے کی وجہ خود فرمائی کہ ایک پانی پینے کیلئے ہے اور ایک دوا پینے کیلئے کیونکہ بعض دوائیں ایسی ہوتی ہیں جن کی خوشبو برتن میں آجاتی ہے ۔ پھر پانی اس میں اچھا نہیں لگتا ۔ گھڑی ایک کاغذ کے کیس میں تھی ۔ جسکا اوپر کا ڈھکن ندارد تھا ۔ اس کو مع کیس کے ایک گلٹکی ڈبیہ میں جو اکثر پانوں کے رکھنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں رکھ کر ٹوکری میں رکھ دیا تھا رات کو سوتے وقت مع ڈبیہ کے سراہنے رکھ دی جاتی ۔ اور دیا سلائی بھی رکھ دی جاتی اور صبح کو بدستور ٹوکری میں رکھ دی جاتی ۔ حضرت گھڑی کو جیب میں نہ ڈالتے کیونکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی اور فعل لا یعنی میں داخل ہے جس کی حضرت کو بالکل عادت نہیں ۔ حتی کہ اگر رات کو آنکھ کھلتی اور اس وقت کوئی خادم جاگتا ہوتا تو اس سے پوچھ لیتے کیا وقت ہے خود گھڑی نہ دیکھتے ۔ اور اگر کوئی خادم بیدار نہ ہوتا تو دیا سلائی جلاکر گھڑی دیکھ لیتے ۔ اور ایک کمبل سیاہ سرک دھاری کا اوڑھنے کیلئے تھا ناشتہ کیلئے پوریاں آنے کی اور قیمہ تھا اور کچھ چپاتیاں بھی تھیں ۔ قیمہ میں آلو بہت باریک کترے ہوئے پڑے ہوئے تھے ۔ ( یہ سالن سفر میں حضرت کو مرغوب ہے اور خشک ہے اور اس میں بکھیڑا بھی کم ہے ۔ عمدہ ناشتہ پوریوں کو ناشتہ میں اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ خشک نہیں ہوتیں ۔ چنانچہ اس سفر میں تین وقت تک اس کی ضرورت تھی اورمیدہ کی پوری سے آٹے کی پوری سریع الہضم ہوتی ہیں ۔ قیمہ آلو ایک مٹی کی چھوٹی سی ہانڈی میں باندھا گیا تھا ۔ خالی ہونے کے بعد اس ہانڈی کو تلف نہیں کیا بلکہ برابر وپسی تھانہ بھون تک محفوظ رہی ۔ کیونکہ تلف کرنا اسراف ہے ناشتہ کھاتے وقت فرماتے جس کو پوری مرغوب نہ ہوں چپاتی کھاؤ اور کنارے خشک ہو گئے ہوں تو ان کو نہ کھاؤ اور ان خشک شدہ کناروں اور دیگر خشک ٹکڑوں کو دستر خوان میں باندھ کر ٹوکری میں رکھو کہ یہ گورکھپور پہنچ کر منشی اکرام الحق صاحب کی بکری یا بلی کو کھلا دیں گے ۔ سبحان اللہ تکبر اور اسراف کس قدر احتراز ہے کہ حق تعالی کی نعمت کو حقیر سمجھ کر پھینک نہیں دیا جیسا کہ آجکل کے تعلیم یافتہ کرتے ہیں یہ اما انا فاكل كما ياكل العبد کی تعمیل ہے ۔ کھانے کا ادب ایک تھیلی جس میں جوتا رہتا تھا اور بستر بند میں باندھی جاتی تھی ۔ احقر نے ایک دفعہ عرض کیا