ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
اس سے مہمان بالکل منقبض ہو جاتا ہے ممکن ہے کہ اس کا جی اس وقت ایک چیز کو چاہتا ہو ۔ دوسری کو نہ چاہتا ہو اور اس چیز کو کھاے تو انبساط نہ ہوا ۔ اور بعض وقت متعدد کھانے اس طرح سے کھلائے گئے کہ مقدار میں بڑھ گئے اور ہضم نہ ہو ئے آپ کی تو خاطر داری ہوئی اور مہمان کو تکلیف ہوئی یہ کیا خاطر داری ہے ۔ حضرت معایہ رضی اللہ عنہ کا قصہ حضرت معایہ رضی اللہ عنہ کا دستر خوان نہایت وسیع ہوتا تھا ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے دستر خوان پر ایک اعرابی بھی تھا ۔ وہ ذرا بڑے بڑے لقمہ کھایا کرتا تھا ۔ آپ نے اس سے کہا کہ بھائی بڑے بڑے لقمے مت کھاؤ اس سے نقصان پہنچنا محتمل ہے ۔ وہ اعرابی کھڑا ہو گیا اور کہا کہ وہ شخص کریم نہیں جس کی نظر مہمانوں کے لقموں پر ہو تمہیں کھلانے کا سلیقہ نہیں تمہارا کھانا نہ کھانا چاہئے ۔ انہوں نے عذر کیا کہ اس میں یہ مصلحت تھی مگر اس نے ایک نہ سنی خفا ہوتا ہوا چل دیا ۔ امام مالک ؒ صاحب کی حکایت امام مالک صاحب ؒ کے یہاں امام شافعی ؒ صاحب مہمان ہوئے جب کھانے کا وقت آیا توخادم نے پہلے امام شافعی ؒ صاحب کے سامنے کھانا رکھا امام مالک ؒ صاحب نے اس کو منع کیا اور پہلے اپنے سامنے رکھوایا ۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کو اپنے سے کم سمجھا ۔ چنانچہ اگر آجکل کوئی ایسا کرے تو ضرور یہ ہی سمجا جائے کہ مہمان سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور عجب نہیں کہ مہمان خفا ہو کر اٹھ جائیں اور بعض مواقع میں یہ بات بے اصل بھی نہ ہوگی ۔ آجکل ہم لوگوں میں تکبر ہے ہی ۔ وہ لوگ بڑے بے نفس تھے اور اخلاق شرعی ان کے لئے عادت بن گئے تھے ان کا فعل ہر گز از راہ تکبر نہ تھا ۔ بلکہ اس واسطے تھا کہ مہمان کو انقباض نہ ہو دیکھئے کتنی باریک نظر ہے اور چونکہ اس میں خلوص تھا اس واسطے مہمان پر بھی برا اثر نہ ہوا ۔ یہاں سے اور یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہو گی کہ آجکل ایسا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سمجھا نا مشکل ہے کہ ہم نے کس واسطے ایسا کیا یہاں اس میں سلامتی ہے کہ اکرام کی صورت باقی رکھی جائے کیا کیا جائے کہ یہاں تکلفات عادت ہو گئے ہیں جن کو طبیعت ثانیہ کہا جاسکتا ہے ۔ یوں تکلفا ت کی وہ مثال ہو گئی ہے کہ : ایک گالی بکنے والے کی حکایت جیسے ہمارے یہاں تھانہ بھون میں ایک شخص تھے کہ گالی بکنے کے بہت عادی تھے کسی سے بے