اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جان کی پروا نہیں کی، اپنے آرام پر بچہ کے آرام کو ترجیح دی۔ یہ بات پیر صاحب میں کہاں ہے؟ وہ تو ذرا ذرا سی بات پر خفا ہوجاتے ہیں، پھر نذرانہ کے بغیر مانتے ہی نہیں۔ ہاں وہ قید ’’دین‘‘ کی ضرور یاد رکھیے کہ ماں باپ کاحق دین کی باتوں میں پیر سے زیادہ نہیں۔ یعنی اگرماں باپ کسی دین کی بات کے خلاف حکم کریں اور پیرکاحکم شریعت کے موافق ہو، اس صورت میں ترجیح پیر کے حکم کوہوگی۔ اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ پیر کایہ حکم دراصل خدا ورسول ﷺ کاحکم ہے اورخدا ورسول ﷺ کے حکم کوخاونداورماں باپ سب کے حکم پر ترجیح ہے۔ ہاں دین کی باتوں کے علاوہ دیگر امور میں پیرکے حکم پر ماںباپ کے حکم اورخاوند کے حکم کو ترجیح ہے۔ دیکھو! میری اس تقریر کوخوب سمجھ لینا ،اس میں غلطی نہ کرنا۔ بہت لوگ یہ احکام عورتوںکے کانوں تک اس لیے نہیں پہنچنے دیتے کہ اس سے پیروںکی وقعت ان کے ذہن سے کم ہوجاوے گی۔ مگر مجھے اس کی پروا نہیں، مسلمان کادین درست ہونا چاہیے، ان کے دل میں اللہ ورسول ﷺ کی وقعت وعظمت ہونا چاہیے، خواہ کسی اورکی ہویا نہ ہو۔ اس تقریر کو سن کر پیرصاحبان ضرور خفا ہوں گے اور دل میں کہیں گے کہ لو! ہمارا زور گھٹادیا، ہم تو پیر تھے ہی، اس نے خاوند کوپیر بنادیا بلکہ ہم سے بھی بڑاپیر بنادیا اورماں باپ کو بھی ہم سے بڑھادیا۔ میں کہتا ہوں کہ جب خدا نے ہی ان کو بڑھایا ہے تو کسی کاکیا اختیار ہے کہ ان کو گھٹا دے۔ بہرحال میں یہ کہہ رہاتھا کہ حق تعالیٰ نے جوعورتوںکو محکوم اورخاوند کو حاکم بنایا ہے اس کو سختی اور ظلم نہ سمجھنا چاہیے بلکہ عورتوں کے حق میں یہ عین رحمت وحکمت ہے، کیوںکہ تابع ہونے میںبڑی راحت ہے اور مساوات میں کبھی نظام اور تمدن قائم نہیں ہوسکتا، ہمیشہ جھگڑا اور فساد ہی ہوتاہے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا اور دِین دونوں کانظام اسی طرح قائم رہ سکتاہے کہ ایک تابع ہوایک متبوع ہو۔ لوگ آج کل اتفاق واتحاد کے لیے بڑی لمبی لمبی تقریریںکرتے ہیں اور تجویزیں پاس کرتے ہیں، مگرجڑ کو نہیں دیکھتے۔ یادرکھو! اتفاق واتحاد کی جڑ یہ ہے کہ ایک کو بڑا مان لیا جاوے اورسب اُس کے تابع ہوں۔ جس جماعت میں متبوع اور تابع کوئی نہ ہو، سب مساوات ہی کے مدعی ہوں، اُن میں کبھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو مساوات کاخیال تو عورتوں کو اپنے دل سے نکال دینا چاہیے، کیوںکہ یہی فساد کی جڑ ہے۔ اب دو ہی صورتیں ہیں: یا تو عورتیں متبوع ہوں اور مرد تابع، یا مرد متبوع اور عورتیں تابع۔ اس کا فیصلہ انصاف کے ساتھ خود عورتوںکو ہی اپنے دل سے کرلینا چاہیے کہ متبوع بننے کے قابل وہ ہیں یا مردہیں۔ سلیم الفطرت عورتیں کبھی اس کاانکار نہیں کرسکتیں کہ عقل میں اور طاقت میں مرد ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ وہی عورتوںکی حفاظت وحمایت کرسکتے ہیں۔ عورتیں مردوں کی ہرگز حفاظت نہیں کرسکتیں۔ پس مردوں کو ہی متبوع اور عورتوںکو تابع ہونا چاہیے، یہی شریعت کا فیصلہ ہے اور اسی لیے اس جگہ بھی مردوں کاذکر عورتوں سے مقدم