اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک اور لڑکی کی تصنیف کردہ کتاب میرے پاس آئی جس کو میں نے پڑھا تو وہ بہت نافع معلوم ہوئی ،اس میںکوئی نقصان کی بات نہ تھی ،مگر اخیر میں مصنفہ کاپورا نام اور پتہ لکھا ہوا تھا کہ فلانی فلاں محلہ کی رہنے والی۔ میں حیران ہوا کہ اگر تصدیق کرتاہوں توپورا پتہ لکھنے کے واسطے بھی سند ہوجائے گی، کیوںکہ نام اور پتہ وغیرہ سب لکھا ہوا ہے۔ اور تصدیق نہیں کرتاہوں تو سوال ہوسکتاہے کہ اس میں کون سی باتمضر تھی جو تصدیق نہ کی۔ اس تردد میں تھا کہ ایک ترکیب سمجھ میں آگئی، وہ یہ کہ میں نے مصنفہ کانام کاٹ دیا اور بجائے اس کے لکھ دیا: راقمہ: اللہ کی بندی۔ اورتقریظ میںلکھ دیا کہ یہ کتاب نہایت عمدہ ہے اور سب سے زیادہ خوبی اس میں یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بی بی کی تصنیف کردہ ہے جوکہ بڑی حیا دار ہیں کہ انھوں اپنا نام بھی اس پر نہیں لکھا۔ یہ ترکیب نہایت اچھی رہی، اس واسطے کہ اگر وہ میری تصدیق اپنی کتاب پر چھاپیں گی تو اپنا نام نہیں لکھ سکتیں اور اگر اپنا نام لکھیں گی تو میری تصدیق نہیں چھاپ سکتیں۔ چلو! میرا پیچھا چھوٹا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کواپنی تصنیف پر اپنا نام لکھنے سے کیا مقصود ہے؟ اگر ایک مفیدمضمون دوسری عورتوں کے کان تک پہنچا ناہے تو اس کے لیے نام کی کیاضرورت ہے؟ مضمون توبغیر نام کے بھی پہنچ سکتاہے، پھر نام کیوں لکھاجاتاہے؟ اس کی وجہ سوا اس کے کیا ہوسکتی ہے کہ دوسروں سے تعلقات پیدا کرنے ہیں۔ سو بیبیو! یادر کھو کہ تم کو تو تعلق ایک ہی شخص سے رکھنا ہے ۔یعنی شوہر سے۔تمہارا ساتھ تو تمام عمر کے لیے اسی کے ساتھ ہے۔ اول تو مردوں کے واسطے بھی میں کہتاہوں کہ کتاب پر نام لکھنے کی ضرورت نہیں، کیوںکہ مقصود خدمتِ خلق ہے۔ خدمت نام سے نہیں ہوتی تونام لکھنے میں سوائے شہرت اور نفس پرستی کے کیاہے؟ مگرخیر مردوں کے لیے چنداں حرج بھی نہیں ،بلکہ اس میں ایک یہ مصلحت بھی ہوسکتی ہے کہ مصنف کے ثقہ یاغیر ثقہ ہونے سے کتاب کا درجہ اور اس کی روایات کادرجہ متعین ہوجاتاہے۔ مگر عورت کے لیے تو کسی طرح بھی نام لکھنا مناسب نہیں ہے، عورت کو تو کوئی تعلق سوائے خاوند کے کسی سے بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ اس کا مذہب تو یہ ہونا چاہیے: دلا رامے کہ داری دل درد بند دگر چشم از ہمہ عالم فرو بند اگر تم محبوب رکھتے ہو تو دل کا تعلق اسی سے رکھو اور اپنی نگاہ کو سارے عالم سے بند ہی کرلو۔ بلکہ قرآن مجید کے اندر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عورتوںکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں جس سے نفرت پائی جائے نہ کہ محبت والفت۔ أَسْتَغْفَرُاللّٰہَ !اس کو لوگوں نے تہذیب سمجھ لیاہے۔