اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سات سو مقبول نمازیں چھین لی جائیں گی۔ پھر یہ کیا عقل مندی ہوئی کہ خرچ تو دَینِ مہر سے زیادہ ہوگیا، مگر قرضہ بدستور ذمہ باقی رہا۔ ہاں جب دنیا میں مہر کا مطالبہ ہوتاہے کہ بیوی مرگئیں اور وارثوں نے مہر کا دعوی کیا یا طلاق کا اتفاق ہوا اور بیوی نے مہر کا دعوی کیا ، اب شوہرصاحب کہتے ہیں کہ یہ سب زیور تو میں نے مہر میں دیاتھا۔ کوئی اس سے پوچھے کہ خدا کے بندے !خدا تو نیت کو جانتاہے ،بندوں کو نیت کی کیا خبر؟ تو نے کب کہاتھا کہ یہ زیور مہر میں ہے، یوں تم کسی کو لاکھ روپے بخش دو۔ اگر اس کا ایک پیسہ آپ کے ذمہ قرض ہے، تو وہ تمہارے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ قرض جب ادا ہوتا ہے جب یہ کہہ کر دو کہ یہ قرض کی رقم ہے ، تو اگر زیور مہر میں دینا ہے تو دیتے وقت تصریح کردینا چاہیے کہ یہ مہر میں ہے اور اس کا حساب لکھو یا ذہن میں رکھو۔ غرض گول مول بات کیوں رکھتے ہو، یہ حقوق کا معاملہ ہے، ایک پیسہ بھی رہ جائے گا تو قرض ہی رہ جائے گا۔ غرض جوکام ہو باضابطہ ہو،گول مول نہ ہو۔ بیان یہ ہورہاتھا کہ عرب میں یہی دستور تھا کہ میاں کے املاک علیحدہ ،بیوی کے املاک علیحدہ ہوتے تھے ۔تو جب حدیث میں لفظ مِنْ حُلِیِّکُنَّ ہے تو اس کے معنی یہی ہوں گے کہ اس زیور میں سے خیرات کرو جو تمہاری مِلک ہے، نہ کہ اس میں سے جو خاوند کی مِلک ہے۔ مگر پیشہ ور واعظ اس کا کچھ خیال نہیں کرتے۔ وہ عورتوں کو ڈرانا ہی جانتے ہیں کہ تم دوزخی ہو،خیرات کرو،ا ور جوکچھ ہے سب دے ڈالو، خواہ کسی کاہو، تمہاری ملک ہو یاخاوند کی۔ ایسی گڑبڑ جیسی ہندوستان میں ہے کہیں بھی نہیںہے۔ عرب میںمہر کے متعلق اب تک یہ رسم ہے کہ عورتیں مردوں کی چھاتی پر چڑھ کر مہر وصول کرتی ہیں۔اور ہندوستان میں اس کو بڑا عیب سمجھا جاتاہے۔ ہندوستان کی عورتیں مہر کو زبان پر بھی نہیں لاتیں اورخاوند کے مرتے وقت اکثر بخش ہی دیتی ہیں۔ میں کہا کرتاہوں کہ ہندوستان کی عورتیں حوریں ہیں ،حسن وجمال میں نہیں بلکہ اخلاق میں۔یہاںکی عورتیں۔{حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ} (رحمن:۷۲)کی مصداق ہیں۔ ایک بڑی صفت عفت کی تو ان میں ایسی ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے ان پر یہ آیت صادق آتی ہے: {فِیْہِنَّ قٰصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَ لاَجَآنٌّ}(رحمن:۷۴) گھروں میں بیٹھنے والیاں تو ہیں ہی، یہاں کی باہر پھرنے والیاں بھی اکثرپاک صاف ہیں۔ جب گھر سے نکلتی ہیں تو نگاہیں نیچی کیے ہوئے ، گھونگٹ نکالے ہوئے، راستہ میں کسی کو سلام تک نہیں کرتیں۔ سلام کرنا فی نفسہ ہنر سمجھا جاتاہے اور ہے بھی، مگر عورتیں غایت حیا سے آپس میں بھی سلام نہیں کرتیں۔ان کو مردوں سے تو شرم ہے ہی، غیر عورتوں سے اور بڑی عمر والی عورتوں سے بھی شرم آتی ہے۔ غالباً اس شرم ہی کی وجہ سے زبانی سلام متروک ہوا۔ گو ایسی شرم قابلِ ترک ہے جس سے سنت متروک ہوجاوے۔ عورتیں مردوں کو گو سلام نہ کریں مگر آپس میں تو سلام کرلیا کریں اور مردوں کو بھی جو محرم ہوں ان