اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ایک دوست نے ایک اچھی سی چارپائی دی تھی، اس کو میں نے اپنے نام کرلیا ہے ، باقی چارپائیاں گھر کے لوگوں کی ہیں۔ اسی طرح ہر چیز بٹی ہوئی ہے۔ یوں برتنے میں سب کے آتی ہیں، مگر یہ تو معلوم ہے کہ یہ ملک کس کی ہے؟ موت حیات سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ اگر کوئی آدمی گھر میں سے کم ہوجائے تو صاف معاملہ کی صورت میں گڑبڑ تو نہ ہوگی کہ یہ چیز کس کی ہے اور یہ کس کی؟ وہ کہے: فلانے کی، اور وہ کہے: فلانے کی۔ سارے گھروں میں یہ انتظام ہونا چاہیے اور اس سے لوگوں کو وحشت ہوتی ہے، وہ برا مانتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ رسم عام نہیںہے، اگر ایک دو آدمی ایسا کرتے ہیںتو نئی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ اگریہی رسم عام ہوجائے تو نہ کوئی برا مانے گا، نہ اس سے وحشت ہوگی اور اس کے فوائد دیکھ کر سب قائل ہوجاویں گے اور تحسین کرنے لگیں گے۔ زیور میں بھی یہی چاہیے کہ جب بنوایا جائے صاف کہہ دیاجائے کہ بیوی! تمہاری مِلک ہے اور اگر ان کی مِلک کرنا نہیں ہے تو صاف کہہ دیا جائے کہ مِلک میری ہے اور تمہارے واسطے عاریت ہے، صرف پہننے کی اجازت ہے۔ اب جو ایسا نہیں کیا جاتا تو نتیجہ یہ ہوتاہے کہ زیور کے متعلق جو حقوقِ شرعی ہیں ان میں یہی کوتاہی ہوتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ، کہ میاں بے فکر ہیں کہ میرے کام میں تھوڑا ہی آرہا ہے، میرے اوپر زکوٰۃکیوں ہو، اور بیوی بے فکر ہے کہ میری مِلک تھوڑا ہی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کوئی بھی نہیں دیتا۔ جب خاوند کھسک گئے تو اب بیوی صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ میری ملک ہے، انھوں مجھے دے دیاتھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ زیور تمام عمر تو پہننے کے لیے تھا ،اس لیے زکوٰۃ شوہر کے ذمہ واجب کی جاتی ہے اور بعد مرنے کے مالک بننے کے لیے بیوی صاحبہ موجود ہیں۔ غرض خرچ کے لیے خاوند مالک اور آمدنی کے لیے بیوی، یہ خرابی کا ہے سے پیدا ہوئی؟صرف اس وجہ سے کہ مِلک علیحدہ نہیں کی گئی۔ اور اگر بنوانے کے بعد ہی تصریح کردی جاتی کہ یہ کس کی ملک ہے تو یہ کوتاہی نہ ہوتی اور زکوٰۃ دینے کے وقت یہ حیلہ بھی ذہن میں نہ آتا کہ ہر چیز میری تھوڑا ہی ہے ،بس معاملہ صاف ہونا چاہیے۔ اگر زیور بیوی کی ملک کردیا گیا ہے تو زکوٰۃ اسی کے ذمہ ہوگی۔ اور اگر عاریۃ دیا گیا ہے تو زکوٰۃ خاوندکے ذمہ ہوگی(یہ اور بات ہے کہ بیوی کی طرف سے بھی اس کی اجازت سے خاوند ادا کردے۔ زکوٰۃ اس طرح بھی ادا ہوجاتی ہے)۔ ایک خرابی اور لیجیے کہ زیور ہزاروں روپے کا بیوی صاحبہ کو دیتے جاتے ہیں، مگر یہ تصریح نہیں کرتے کہ یہ زیور مہر میں محسوب ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بیوی کو سب کچھ دے دیا، مگر مہر کا ایک پیسہ بھی ادا نہیں ۔ لاکھ روپے خرچ ہوگئے ،مگر قرض دار کے قرض دار ہی رہے۔ جو حق العبد ہے اور حق العبد کا جو نتیجہ ہے وہ آپ سن چکے ہیں کہ تین پیسہ کے بدلے