اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک بزرگ کے سامنے سے ایک شخص نہایت فخر اور تکبر سے اکڑتاہوا نکلا۔ ان بزرگ نے اس کو نصیحت فرمائی کہ بھائی! اتراؤ مت۔ اس نے کہا کہ تم مجھ کو نہیں جانتے میں کون ہوں؟ فرمایا: ہاں! جانتاہوں:أَوَّلُکَ نُطْفَۃٌ قَذِرَۃٌ، وَآخِرُکَ جِیْفَۃٌ مَذِرَۃٌ ، وَأَنْتَ بَیْنِ ذٰلِکَ تَحْمِلُ الْعَذِرَۃَ۔ اور اس سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ شرفِ نسب کوئی چیز نہیں ہے۔ آخرت میں تو واقعی نسب کوئی چیز نہیں ہے، عمل ہی کام آنے والا ہے، لیکن دنیا میں وہ بے کار بھی نہیں ہے۔شریعت نے خود اس کا اعتبار کیا ہے۔ اگر نسب کوئی شی نہ ہوتی تو غیرِ کفو میں نکاح کرنے سے منع نہ کیاجاتا اور یہ قانون مقرر نہ ہوتا: اَلْأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ۔ ائمہ قریش میں سے ہیں۔ ان احکام سے معلوم ہوتاہے کہ شرع نے بھی شُرَفا میں ضرور تفاوت رکھا ہے، اور یہ تفاوت مصالحِ تمدنیہ کی حفاظت کے لیے ہے۔ اگر سب کے سب اس میں یکساں ہوتے تو تمدن محفوظ نہ رہ سکتا،نہ کوئی کام چل سکتا۔ مثلاً اگر کوئی گھر بنانے کے لیے کسی کو کہتا: تو وہ کہتا تم ہی ہمارا گھر تعمیر کردو۔ نائی سے خط بنانے کو کہتے، وہ کہتا: تم ہی میرا بنائیو۔ دھوبی کپڑے نہ دھوتا۔ غرض سخت مصیبت ہوتی۔ اگر بڑھئی کی ضرورت ہوتی تو وہ نہ ملتا۔ اگرنوکر کی ضرورت ہوتی، نوکر نہ ملتا۔ یہ ادنیٰ اعلیٰ کا تفاوت ہی ہے جس سے لوگوں کے کام چل رہے ہیں۔ چناںچہ اَلْأَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ میں بھی ایک انتظامی مصلحت ہے۔ قدرتی طور سے اللہ تعالیٰ نے قریش کو فضیلت دی ہے، تو جب ائمہ اور اُمَرا اُن میں سے ہوں گے تو اوروں کو اُن کے اتباع سے عار نہ ہوگا، اور ان کو دوسرے کے اتباع سے عار ہوتا اور جنگ وجدل کی صورت قائم ہوتی۔ اور نیز یہ قاعدہ ہے کہ آدمی اپنے خاندانی شی کی بہت حفاظت کیاکرتاہے، تو اگر قریشی امام ہوگا تو دین کی حفاظت دو دوجہ سے کرے گا: ایک اس وجہ سے کہ دین اُن کے گھر کاہے، ددوسرے مذہبی تعلق سے۔ پس معلوم ہوا کہ نسبت میں مصالح تمدنیہ مُوَدَّع ہیں اس لیے وہ بے کار نہیں، مگر نسب پر تکبر کرنا اورفخر کرنا ہرحالت میں حرام ہے۔ اور آج کل کے شُرَفا میں تو نسب پر تکبر ہی ہے، مگر غیر شُرَفا میں دوسرے طور پر تکبر پایا جاتاہے کہ اپنے کوشُرَفا کے برابر سمجھتے ہیں اور اپنے میں اور ان میں کچھ فرق نہیں جانتے، یہ بھی زیادتی ہے۔ جو فرق اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے اس کو کون مٹاسکتاہے۔ غرض یہ کہ تفاخر اور کبر بھی برا ہے جیسا مدعیان شرافت خصوصا عورتوں میں ہے، اور فرقِ مراتب نہ رکھنا بھی ناپسندیدہ ہے، جیسا دوسری قوموں نے بھی اختیار کیاہے۔