اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طب دیکھ کر ادویہ کھانے لگے، بنانے لگے، ا س سے بجائے نفع کے، خوف ضرور غالب ہوگا۔ جب تک طبیب کی رائے سے دوا نہ کھائے کچھ نفع نہ ہوگا۔ اسی طرح چونکہ عورتوں کے اخلاق کی تربیت نہیں ہوتی اور کسی مربی سے رجوع نہیں کرتیں اور جوکچھ سمجھ میں آتاہے کرلیتی ہیں، اس لیے اپنے کو باکمال سمجھنے لگتی ہیں۔ ایک لڑکی کا کسی شخص سے نکاح ہوا۔ وہ لڑکی نماز روزہ کی پابند تھی اور شوہر اس قدر پابند نہ تھا اور آوارہ ساتھا۔تو وہ لڑکی کہتی ہے کہ افسوس !میں ایسی پرہیزگار اور ایسے شخص کے جال میں پھنس گئی، میری قسمت ڈوب گئی۔ حالانکہ بے وقوف یہ نہیں سمجھی کہ اگرہم نے نماز پڑھی، روزہ رکھا ،تلاوت کی تو اپنا کام کیا، دوسرے پرکیا احسان کیا۔ کوئی دوا پی کر فخر کرتاہے کہ میں بڑا بزرگ ہوںکہ دوا پیا کرتاہوں۔ اسی طرح یہ سب طاعات میں اپنا ہی نفع ہے اور اس سے اپناہی حق ادا کررہاہے۔ اورحقوق اللہ جو اُس کا لقب ہے ،یہ اس اعتبار سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے منتفع ہے یا اس کا حق اس سے اُتر جاتاہے۔ کیوںکہ صاحبِ حق کو تو دیکھنا چاہیے کہ اس کی ہم پر کس قدر نعمتیں ہیں۔ اگر نعمتوں کو دیکھا جاوے تو درحقیقت یہ ہماری نماز روزہ کچھ بھی نہیں۔ اورجہاں ہزاروں انبیا، اولیاوملائکہ کی عبادتوں کے ذخیرے کے ذخیرے ،انبار کے انبار موجود ہیں،ان کے مقابلے میں ہمارے روزہ نماز کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ جواہرات کے سامنے مٹی کے کھلونے۔ تو حقیقت میں احسان تو حق تعالیٰ کا ہے کہ ہماری ایسی عبادتوں کو قبول فرماتے ہیں۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص کسی اپنے مخدوم کی خدمت بدون اس کی حاجت کے اس کی مرضی کے موافق نہ کرے اور اس مخدوم کو اس خدمت سے بجائے راحت کے تکلیف پہنچی، مگر خوش اخلاقی سے خاموش ہوجاوے، تو وہ خادم اپنی جہالت سے یہ سمجھے گا کہ میں نے بڑا کام کیا۔ حالانکہ بڑا کام تو مخدوم نے کیا کہ اس ناگوار خدمت کو قبول فرمایا۔ دیکھئے! قاعدۂ عقلیہ اور شرعیہ ہے کہ کامل وناقص کا مجموعہ ہمیشہ ناقص ہوتاہے اور پاک وناپاک مل کر ناپاک ہوتاہے۔ پس جب کہ ہماری نماز میں وساوس وخطرات اور ترک سنن اور خلافِ خشوع امور بھی شامل ہیں تو وہ مجموعہ نماز کامل کیسے ہوئی؟ اسی بنا پر حدیث شریف میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز پڑھنے والے کو جوکہ تعدیل ارکان نہ کرتاتھا فرمایا: صَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ یعنی تُو نمازپڑھ لے، اس لیے کہ تُونے نماز نہیں پڑھی۔ چونکہ اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے پھر اس کو طریقہ نماز کا مع تعدیلِ ارکان اور آداب کے سکھایا اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جس قدر اس میںسے کمی ہوگی اسی قدر نماز میں کمی ہوجاوے گی۔ اس لیے فقہا ئے اُمت ؒ نے سمجھا کہ نماز تو ہوجاوے گی مگر ناقص ہوگی، ورنہ ظاہرِ الفاظِ حدیث سے تو معلوم ہوتاتھا کہ بالکل ہی نماز نہ ہو۔