اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پس مضمون تو ختم ہوگیا اب اُس کا ایک ذُنابہ رہ گیا،اس کو بیان کرکے میں اپنی تقریر ختم کردوں گا۔ وہ ذُنابہ ایک طالبِ علمانہ اشکال وجواب ہے جس کو طلبا واہلِ علم خوب سمجھ لیں گے۔ اشکال یہ ہے کہ قرآن سے تو معلوم ہوتاہے کہ عورتیں کامل ہوسکتی ہیں چناںچہ {الصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ} اس پر دلالت کررہا ہے۔ اور ایک حدیث میں بھی ہے: کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَّلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَائِ إِلَّا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وآسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ، وَفَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلَی سَائِرِ الطَّعَامِ۔ جس کاحاصل یہ ہے کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل ہوئے لیکن عورتوں میں بجز مریم ؓ اور آسیہ فرعون کی بیوی کے اور کوئی کامل نہیں ہوئی، اور حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت ہے تمام کھانوں پر۔ اس سے عُلَما نے حضرت عائشہؓ کا کمال بھی سمجھا ہے کہ وہ بھی کامل ہیں۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتیں کامل ہو بھی سکتی ہیں اور اس کا وقوع بھی ہوا ہے گو ان میں کامل افراد بہ نسبت مردوں کے کم ہیں۔ مگر ایک حدیث سے یہ مفہوم ہوتاہے کہ عورتیں کامل ہو ہی نہیں سکتیں۔ وہ حدیث یہ ہے کہ آپ نے ایک بار عورتوںکوخطاب کر کے فرمایا: مَارَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذَہَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ۔ میں نے عورتوں سے بڑھ کوئی کو ناقص العقل اور ناقص الدین ایسا نہیں دیکھا جو ہوشیار مرد کی عقل کو جلدی زائل کردیتاہو۔ اس پر عورتوں نے سوال کیا :یارسول اللہ !(ﷺ ) ہماری عقل اور دین میں کیا نقصان ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا عورتوں کی گواہی مردوں کی آدھی گواہی کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا :بے شک۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ان کی عقل کا نقصان ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر شمار کی گئی ہے۔ اور کیا جب تم کو حیض آتاہے تو تم نماز، روزہ چھوڑ کرنہیں بیٹھ جاتیں ؟ انہوں نے کہا: بے شک۔ فرمایا کہ یہ تمہارے دین کا نقصان ہے۔ اس حدیث میںحضورﷺ نے عورتوں کے ناقص ہونے کا جو سبب بیان فرمایا ہے وہ ایسا سبب ہے جس سے کوئی عورت بھی خالی نہیں۔ لہٰذا لازم آتا ہے کہ عورتوں میں کوئی بھی کامل نہ ہوسکے، حالاںکہ قرآن اور دیگر احادیث سے ان میں بھی کاملات کاوجود معلوم ہوتاہے۔ یہ اشکال عرصہ سے میرے ذہن میں تھا، مگر اس کا کوئی شافی جواب اب تک ذہن میں نہ آیا تھا اس لیے اس اشکال کو اب تک میں نے کہیں بیان نہ کیا کہ خواہ مخواہ دوسروں کو بھی کیوں پریشانی میں ڈالوں۔الحمدللہ! اس وقت جواب ذہن میں آگیا، اس لیے میں نے اشکال کو بھی بیان کردیا او جواب بھی عرض کرتاہوں۔ اس کاحاصل یہ ہے کہ کمال کی دو قسمیں ہیں :ایک کمالِ اختیاری، ایک کمالِ غیراختیاری۔ اسی طرح نقصان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری،ایک غیر اختیاری۔ اور انسان مکلف ہے تحصیلِ کمالِ اختیاری کا جوکہ امر مُکتسَب ہے، اورانسان