اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہر فرقہ کی غلطیاںظاہر کی ہیں اور ان دھوکوں پر متنبہ کیا ہے، جن میں وہ مبتلا ہیں۔ توچوںکہ اس سے دنیا بھر کے اَترے پَترے کھلتے تھے اس لیے سب لوگ ان کے دَرپے ہوگئے۔ پھر کافر بنانے کو موقع مل ہی جاتاہے۔ چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید ہنرش در نظر بدخواہ کی آنکھ پھوٹ جائے کہ اس کی نظر میں ہنر بھی عیب دکھائی دیتے ہیں۔ جب اآدمی کسی کے دَرپے ہوجاتاہے تو اس کوکمالات بھی عیوب نظر آتے ہیں۔وہ کتاب دعوے پست کرنے والی ہے۔ جولوگ اپنے کمالات کے معتقد ہیں اس کو وہ دیکھیں پھر غور کریں کہ وہ کس دھوکہ میں مبتلا تھے۔ بعض لوگ اپنے اعمال پر ناز کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں مگرہماری طاعات کی ایسی مثال ہے جیسے بعض دفعہ نوکر آقا کو پنکھا جھلتا ہے، کبھی اتنے زور سے کہ ٹوپی بھی اس کے سر سے اُڑجاتی ہے، کبھی اتنے آہستہ کہ اس کو ہوا بھی نہ لگے۔ آقا کو ایسا پنکھا جھلنے سے تکلیف ہوتی ہے، مگر وہ خوش اخلاقی کی وجہ سے کچھ نہیں بولتا۔ تو اگر وہ نوکر ایسی خدمت کرکے ناز کرے کہ میں نے آج دو گھنٹہ آقا کی خدمت کی تو اس کا یہ ناز بجا ہے یا بے جا؟ یقینا ہر شخص اس کو احمق بتائے گا کہ تو ناز کس بات پر کرتاہے، جتنی دیر تونے خدمت کی ہے آقا کو تکلیف پہنچائی ہے، تو اسی کوغنیمت سمجھ کہ اُس نے تجھ کو سزا نہیں دی، نہ کہ تُو اُلٹا ناز کرتا اور اپنے کو انعام کا مستحق سمجھتا ہے۔ صاحبو! یہ ہی حالت ہماری طاعات کی ہے کہ حق تعالیٰ ان طاعات پر ہم سے مواخذہ ہی نہ فرمائیں تو بساغنیمت ہے، یہ اُلٹاناز کیسا ؟آخر کیا ہم کو اپنی طاعات کی حقیقت معلوم نہیں کہ ہم اُن کو کس طرح بے سروپا اداکرتے ہیں۔ مولانا نے مثنوی میں ایک بہرہ کی حکایت لکھی ہے کہ وہ اپنے ایک دوست کی عیادت کرنے گیاتھا۔ راستہ میں سوچنے لگا کہ میں تو بہرہ ہوں مجھے دوسرے کی خصوص ضعیف مریض کی بات سنائی نہ دے گی،اس لیے ابھی سے حساب لگالینا چاہیے کہ میں جاکر پہلے کیا کہوں گا وہ اُس کا کیا جواب دے گا، پھر مجھ کو اس کے جواب میں کیا کہناچا ہیے۔چناںچہ اس نے حساب لگایا کہ پہلے اس سے پوچھوں گاکہ مزاج کیساہے؟ وہ کہے گا: شکر ہے، پہلے سے افاقہ ہے ۔ میںکہوں گا: الحمدللہ! حق تعالیٰ اور زیادہ کرے۔ پھر میں کہوں گا کہ معالجہ کون سے طبیب کاہے؟ وہ کہے گا:فلاں حکیم صاحب کا۔ میں کہوں گا:سبحان اللہ! بہت ہی لایق طبیب ہیں، بڑی شفقت فرماتے ہیں، اُن کاعلاج ترک نہ کرنا چاہیے۔ پھر پوچھوں گا :کون سی دوا استعمال میں ہے؟ وہ کسی دوا کانام لے گا، میں کہوں گا :خدا اس کو آپ کی رگ وپے میں پیوستہ کرے اور خوش گوار فرمائے۔ یہ حساب لگا کر وہ پہنچے۔ بیمار نے جو بہرہ کی صورت دیکھی ،گھبرا گیا کہ یہ کم بخت کہاں سے آگیا؟ اب یہ میرا دماغ کھائے گا، اپنی سب کچھ کہہ لے گا میری بات سنے گا نہیں۔ اب بہرہ میاں آگے آئے اور مزاج پوچھا کہ اب طبیعت کیسی ہے؟