اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وَوَقَفَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ، یعنی بارش سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ وجہ یہ کہ عورتیں تو رسوم میں دو تین ہی بار عمر بھر میں صَرف کرتی ہوں گی، اس پر ان کو ملامت کی جاتی ہے کہ ہائیں! فضول خرچی کرتی ہو ۔اور خود رات دن اس سے بڑھ کر فضول میں مبتلا ہے۔ کہیں فوٹو گراف آرہا ہے، کہیں ہار مونیم ہے، کہیں ولایتی فضول چیزوں سے کمرہ سجایا جارہا ہے۔ چھ چھ جوڑے جوتے رکھے ہیں۔ فیشن کے کپڑے قیمتی قیمتی سلوائے جارہے ہیں۔ آٹھ روپیہ کا کپڑا اور سولہ روپے سلائی۔ بعض کے کپڑے لندن دھلنے اور سلنے جاتے ہیں۔ یہ لوگ رات دن اسی قصہ میں مشغول ہیں۔ خود کی تو یہ حالت اور عورتوں کو فضول خرچ بتاتے ہیں۔ پس یہ حضرات جو عورتوں کو رسوم سے روکتے ہیں تو صرف اس لیے کہ دو طرفہ خرچ نہ ہو۔ یہ روکنا قابلِ قدر نہیں، ہاں دین کے سبب سے ہو وہ البتہ مطلوب ہے جس میں روکنے والا اپنے نفس کو بھی شریک رکھتا ہے،یعنی وہ بھی اس اصل کا عامل ہے۔ بعضے طعن وتشنیع کے خوف سے رسوم پر عمل کرتے ہیں، مگر جس میں احکام کی تعمیل کا مادہ ہوگا وہ رسوم کے ترک کرنے میں کسی کے طعن وتشنیع کا خیال بھی نہ کرے گا۔ اور گو یہ ہمت مسلمان سے کچھ بعید نہیں، لیکن آج کل بوجہ مخالفتِ عامہ کے قابلِ تعریف ہے۔ ایسا شخص آج کل ولی اور خدا کا مقبول ہے۔ ایک زندہ نظیر اس کی آپ کے پیشِ نظر ہے۔ میرے دوست تحصیل دار میاں عبدالحمید صاحب ہیں۔ ان کو اپنی دختر کی تقریب کرنا تھی۔ ماشاء اللہ انہوں نے نہایت تدیّن وخلوص سے کام لیا، کیوںکہ بعض رسوم تو شرک وبدعت ہیں۔ سو یہ تواکثر لوگوں میں سے جاتی رہیں۔ انگریزی تعلیم بھی ان کے مانع ہے اور دینی تعلیم بھی، مگر ایک دوسرے قسم کی رسوم ہیں جو تفاخر کے لیے کی جاتی ہیں ،یہ متروک نہیں ہوئیں۔ ان کے کرنے والے بعضے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے ٹونے ٹوٹکے کچھ نہیں کیے ،پھر ہم نے تقریب میں کون سی رسم کی؟ سو سمجھ لیجیے کہ جو یہ رسوم تفاخر کے لیے کی جاتی ہیں وہ بھی گناہ ہیں۔ چناںچہ حضور ﷺ اس شخص کے کھانے سے منع فرماتے ہیں جو تفاخر کے لیے کھلائے۔ بس جو رسم تفاخر کے لیے کی جائے گی وہ منع کیوں نہ ہوگی؟ تو تحصیل دار صاحب نے یہ ہمت کی کہ ان رسموں کو بھی چھوڑا اور سُبکی کی کچھ پروا نہ کی۔ اور کمال یہ کیا کہ اتفاق سے میرے پاس تشریف لائے اور مجھ کو نکاح پڑھنے کے لیے وطن لے جانا چاہا۔ میں نے کچھ عذر کیا ،تو انہوں نے سفر ہی میں اس کام کو تجویز کیا اور یہ تجویز ہوگئی کہ اسی جلسہ میں عقد کردیا جائے۔ اس میں دو مصلحتیں ہوگئیں: ایک تو اس سنت سے اس گھر میں بھی برکت ہوگی۔ دوسرے یہ بھی معلوم ہوجاوے گا کہ نکاح یوں بھی ہوجاتا ہے۔