ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
حضرت لیٹ گئے اور مولوی ظہور الحسن صاحب میز مولوی سیلمان صاحب بدن دبانے لگے فرمایا کہ آج ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی گھمایا بدن چور چور ہوگیا ہے خیال تھا کہ اگر تھوڑی دیر حضرت کو نیند آگئی تو تکان میں کمی آجائے گی - ابھی پندرہ ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ جناب مولوی شبیر علی صاحب ڈاک لے کر آگئے خیال تھا کہ حضرت والا اس وقت ڈاک اٹھا کر رکھ دیں گے اس لئے کہ تکان زیادہ ہے تھوڑی دیر سونے کے بعد تحریر فرمائیں گے - آج ڈاک بھی جلد آگئی تھی ڈال نکلنے کا وقت شام کو چھ بجے تھا اور ابھی دس بھی نہیں بجے تھے - لیکن حضرت والا نے فورا ہی ڈاک دیکھنا شروع کردیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے پھر ایک مرتبہ سرسری طور پر دیکھ کر جوابات لکھنا شروع کردئے بدن دبووانا یا آرام کرنا کیسا - اللہ اکبر یہ ہمت یہ خاص عطیہ خدانوی ہے جو حضور کے لئے مخصوص ہے واقعی امت کی جس قدر خدمت حق تعالیٰ نے حضرت والا سے لی ہے وہ اس کا خاص انعام اور رحمت ہے - غرض تھوڑی دیر کے بعد کھانا کھانے کا وقت آگیا اور پھر کوئی وقت آرام کا مل سکا - شب کو البتہ بدن دبایاجاتا رہا - اس وقت تک کافی تکان باتی تھا - تمام بدن دکھ رہا تھا - کمر مبارک شانے پنڈلیا اور جہان جہاں درد تھا حضرت والا بتاتے جاتے وقت بہت گزرا - آخر نیند آئی اور معمول کے موافق آکر شب کو آنکھ کھلی معمولات ختم کئے گئے اور فجر کی نماز ادا ہوئی - چہار شنبہ 3 ربیع الاول 1357 ح مطابق 4 مئی 1938 ء اب تو حضرت والا کی تشریف آؤری کی خبر عام ہوگئی - اہل شہر اور اوقات کے علاوہ زیادہ تر عصر کے وقت پروانہ وار کوٹھی کے گرد گھومتے نظر آتے تھے - لیکن اجازت صرف انہیں حضرات کوہوتی تھی جن سے بے تکلیف تھی - جناب مولوی شبیر علی صاحب کے ہمشیرزادے مولوی قمر الحسن اور جناب مولوی ظفر احمد صاحب کے صاحبزادے مولوی عمر احمد صاحب تھانوی سلمہم بھی لاہور میں مقیم تھے یہ بھی حضرت والا کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی حاضر ہوئے اور برابر فرصت کے اوقات میں حاضری دیتے رہے - اسی دن جناب مولوی محمد حسن امت تسری نے حضرت والا سے اجازت طلب کی کہ اگر ارشاد ہو تو مولانا خیر محمد صاحب جالندھر کو تشریف آوری کی اطلاع کردوں حضرت