ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ جبریل کو حکم فرماتے ہیں کہ اس میرے بندے تم بھی محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں - اور آسمان سے منادی کردو کہ ایک آسمان اس میرے بندے سے محبت کریں - اور علی ہذا زمین والوں سے بھی کہہ دو حتی یوضع لہ القبول فی الارض او کمال قال علیہ الصلوۃ والسلام - چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ان الذین آمنوا و عملوا الصحٰلت سیجعل لھم الرحمان ودا یہ حدیث وارد ہوئی اور حضرت والا کے مصنفہ اجزاء الاعمال میں بھی ایسا ہی ہے اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے - من تقرب الی سبرا الحدیث - اب دونوں حدیثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں جو اپنے کو مقبولین میں نہیں پاتا ہوں یعنی جب یہ علامتیں موجود نہیں پاتا ہوں تو وسوسہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی عمل مقبول نہیں ورنہ مطابق حدیثین شریفین کے کچھ تو اثار ظاہر ہوتے واذا لیس فلیس حضرت یہ وسوسہ مجھ کو بہت ستا رہا ہے - اور تنگ کر رہا ہے - للہ رحم میرے اوپر - میں نفس کو جواب دیتا ہوں یہ تیرے بس کی بات نہیں ہے - تیرے اختیار سے خارج ہے تو کیوں پریشان ہوتا ہے مگر اس سے بھی پوری تسلی نہیں ہوتی یہ بھی سمجھاتا ہوں کہ بندے کو بندگی سے مطلب تجھے ان باتوں کی فکر ہی کیوں پڑی ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرتے ہوں اور تجھے اس کی خبر نہ ہو - اب حضرت والا اس نحیف زار کے حال زار پر رحم فرمائیں - اور کوئی تدبیر ارشاد فرمائیں کہ یہ خبیث وسوسہ جس سے زائل ہوجائے اور نیز احقر کے لئے دعا فرمائیں - جواب : - حدیث میں یہ لفظ ہے حتی یوضع لہ القبول فی الارض جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ فی نفسہ خاصیت ہے محبوبیت کی لیکن ہر خاصیت کا ظہور مشروط ہوتا ہے شرائط خاصہ سے اور اس میں بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اہل ارض خالی الذہن ہوں ان میں نہ اسباب عداوت ہوں نہ اسباب مودت پھر لفظ قبول مرادف نہیں محبوبیت کا تو حاصل یہ ہوا کہ ایسے خالی الذہن لوگ اس کے مخالف نہ ہوں اور اس کو مردود نہ سمجھیں - گو محبت نہ ہو اب یہ بات ہر صالح کو نصیب ہو جاتی ہے گو اعلیٰ درجہ کا متقی نہ ہو اور تم میں بھی اس کا تخلف نہیں - پریشانی بے بنیاد ہے - ( 11 ) 18 ربیع الاول 1357 ھ کو اس طرح عرض پیرا ہوئے : -