ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
ترکی ٹوپی بجائے قمیص کے کرتہ بجائے کوت شیروانی بجائے پتلون کے شلوار اور بجائے بوت یا شو کے پنجابی نوکدار جوتا تھا - داڑھی نکل نکل کر چہرے کو مور علی نور بنا رہی تھی - ان کے چمکتے اور خوبصورت چہرے کو دیکھ زیادہ سے زیادہ بہت غور وفکر کے بعد یہ کہا جا سکتا تھا کہ شاید یہ ترک ہوں اور ہندوستان میں مدت سے رہنے کی وجہ سے ایسا لبس اختیار کرلیا ہو - مگر ان میں بجززبان اور لہجے کے کوئی بات ایسی نہیں معلوم ہوسکی جس سے یہ کہا جاسکتا کہ یہ لندن کے باشندے ہیں - خانقاہ امدادیہ کے برکات نے ترکی ٹوپی بھی چھڑادی اور بجائے ترکی ٹوپی کے وہ ہندوستانی دوپلی ٹوپی پہننے لگے بجائے معمولی کرتے کے ان کو نیچا اور ڈھیلا کرتا پسند آیا جو شیروانی کا کام بھیی دیتا تھا - خیال تھا کہ وہ ہندوستانی مکانوں بالخصوص مدرسوں اور خانقاہوں کے اجابت خانوں میں جانا پسند نہ کرتے ہوں گے - ان کی عادت کے خلاف ہوگا اور ان کو تکلیف ہوگی - اس لئے ان کے لئے ایسا مکان تجویز کیا گیا جب میں انگریزی اور ہندوستانی دونوں قسم کے معاشرت کا سامان موجود تھا لیکن جب وہ آئے تو پہلے ان کو وہ مکان اور پھر خانقاہ کے حجرے اور اجابت خانے بھی دکھائے گئے لیکن انہوں نے کسی طرح اس مکان میں ٹھہرنا پسند نہیں کیا بلکہ خانقاہ ہی کے حجرے کو اپنے لئے باعث برکت قرار دیا - لیکن مستقل قیام کے خیال سے بعد کو جناب مولوی شبیر علی صاحب کے مکان کے کمرے میں منتقل ہوگئے کھانا بالکل ہندوستانی نہ کانٹا نہ چھری نہ میز نہ کرسی وہی زمین یا تخت وہی چٹائی یا فرش غرض جوا ادا تھی خاکساری منکسر زلمزاجی نیک منشی اور پاکیزہ خیالی کا مکمل نمنونہ تھی - ان کے جزبان کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے لکھنو رہنا صرف اس وجہ سے پسند نہیں کیا کہ وہاں کا تمدن لندن کی طرح پایا وہی بے پردگی وہی بے ہاکی وہی آزادی وہیں سے ملتی جلتی معاشرت آخر شیخ فاروق احمد صاحب کو لکھنو چھوڑنا پڑا اور تھانہ بھون ایسے قصبے میں جہاں روز مرہ کی ضرورتوں کے کل سامانا بھی نہ مل سکتے ہوں رہنا منظور کیا - باوجود اردو فارسی اور عربی نہ جاننے ے صرف حضرت کی مجلس گرامی میں حاضری دینے حضور کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کانوں میں پڑنے حضور کے رخ انور پر نظر جانے اور باطنی توجہ اور فیوض وبرکات کے اثر سے جس قدر ان کو تسکین ہوئی اور استفادہ