ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
|
تفاضل کے یہ معنی ہیں کہ کوئی قوم اپنے کو بڑا سمجھ کر دوسرے کو حقیر بلکہ صرف بعض احکام میں جن کا بیان اوپر گزر چکا اس تفاضل پر عمل کی اجازت ہے - پس جو لوگ اپنے کو بڑا اور دوسروں کو اعتقادیا عملا حقیر سمجھتے ہیں یا بلا دلیل شرعی بڑی قوموں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں یہ دونوں افراط و تفریچ میں مبتلا ہیں - پہلی جماعت کا تکبر تو کھلا ہوا ہے کہ دوسروں کو اعلامیہ حقیر سمجھا - مگر دوسری جماعت والے بھی اعند التامل تکبر کا ارتکاب کر رہے ہیں کیونکہ جب ایک قوم سے نکل کر بلا دلیل شرعی دوسری قوم میں داخل ہونے کی کوشش کی تو جس قوم سے نکلنا چاہا اس کو حقیر سمجھا ورنہ اس سے نکلنے کی کوشش کیوں کرتے اور علاوہ تکبر کے نسب کے بدلنے کے گناہ کا بھی ارتکاب کرتے ہیں - جس پر حدیث میں سخت وعید وارد ہے - بہر حال ان احکام کے علم کے بعد دونوں جماعتوں پر واجب ہے کہ افراط و تفریط سے توبہ کر اکے اتباع نصوص کے تحت میں حدود شرعیہ کے اندر رہیں اور باہم ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں اور کمالات دینیہ حاصل کریں کہ اصلی شرف یہی ہے - رونہ دوسرے اسباب شرف آخرت میں نافع نہ ہوں گے - جو کہ مسلمان کا اصل مقصود ہے -و اللہ الموفق اور یہ سب مضمون مع اجزا اور آیت یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی الیٰ قولہ تعالیٰ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم میں مذکور ہے - احکام آخرت میں مساوات تو صرحنا فی قولی تعالیٰ ان اکرمکم عند الہ اتقکم پس تقویٰ کے مدار کرمیت ہونے میں سب مساوی ہیں اور احکام دنیویہ میں تفاوت قریب بصعاحت فی قولہ تعالیٰ و جعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا تقریر دلالت یہ ہے کہ اختلاف شعوب و قبائل کی غایت تعارف و تمائز کو فرمایا اور ظاہر ہے کہ تعارف و تمائز احکام دنیویہ میں سے ہے - اور خود مقصود بالذات نہیں - بلکہ ادائے حقوق خاصہ کے لئے مقصود ہے اور جو حقوق تعارف و تمائز پر متفرع ہوتے ہیں وہ سب احکام متعلقہ با لمصالح الدینویہ ہیں - پس اس طرح پر دلالت حاصل ہو گئی - ولہ الحمد علی ما علم و فھم و ھدانا الی طریق الاقوام 16 رجب 1957 ھ ( کتبہ بقلمہ اشرف علی عفی عنہ فی کانپور یوم الغد من انعقاد مومن کانفرنس 16 رجب 1357 ھ ) کانپور میں بھی برابر وہی دوائیں جو لکھنو میں استعمال ہوتی تھیں استعمال ہوتی