اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ۔ یعنی مؤمن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں کاٹا جاتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مؤمن کو کسی جگہ سے ضرر پہنچے تو اس کی شان یہ نہیں ہے کہ پھر وہاں جاوے، یاکسی آدمی سے تکلیف ونقصان پہنچاتو یہ مناسب نہیں کہ پھر اس سے معاملہ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اتنی بیدار مغزی کمال کی بات ہے کہ اپنے کو مضرت سے بچائے۔ اسی واسطے دین کو نفع ہمیشہ عُقَلا ہی سے ہوا ہے۔ انبیا اور مقتدائے دین جس قدر ہوئے ہیں سب بڑے عاقل تھے۔ کسی نبی کی ایسی حکایت نہ سنی ہوگی وہ بھولے ہوں، ان کو کچھ خبر نہ ہو۔ ہاں چالاک ومکار نہ تھے۔ عاقل، ہوشیار ،حکیم تھے۔ اور یہ تو وہ شی ہے کہ جس کی بنا پر خلیفۃ اللہ بنایاگیا ہے۔ غرض یہ کہ عورتوں میں چالاکی اور مکر ہے، عقل نہیں۔ اس چالاکی ومکر کی وجہ سے عاقل کی عقل کو سلب کرلیتی ہیں۔ چناںچہ تنہائی میں ایسی باتیں کرتی ہیں کہ جس سے شوہر کا دل اپنی طرف ہوجاوے اور سب سے چھوٹ جاوے۔ بیاہ کے بعد گھر آتے ہی سب سے اول کوشش ان کی یہ ہوتی ہے کہ شوہر ماں باپ سے چھوٹ جاوے۔ بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس ماں نے مشقتیں اٹھاکر اس کو پالا، اپناخونِ جگر پلایا ،خود تکلیف میں رہی اور اس کو آرام سے رکھا، اس کے تمام ناز برداشت کیے۔ اور جس باپ نے دھوپیں کھائیں اور اولاد کے لیے گھر چھوڑا، محنت کرکے ان کو پالا۔ آج ان کی خدمات کا یہ صلہ دیا جاتاہے کہ ان سے چھڑایا جاتاہے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پھر اگر یہ منتر ان کا چل گیا تو اس پر بھی اکتفا نہیں۔ کہتی ہیں کہ تم تو الگ ہوگئے، مگر تمہاری کمائی تو ان کے پاس جارہی ہے ،کبھی ماں کو جُوتا لادیا ،کبھی نقد کچھ دے دیا۔غرض کوشش کرکے اس میں بھی کامیاب ہوتی ہیں۔ پھر اس پر بھی صبر نہیں آتا، اس کے بھائی بہن سے اور اگر پہلی زوجہ سے اولاد ہو اس سے چھڑاتی ہیں۔ غرض شب وروز اسی فکر میں گزرتا ہے اوریہی رات دن سعی ہوتی ہے کہ سوائے میرے اور میری اولاد کے کوئی نہ ہو۔ اور ان ہی کی بدولت بہت سے گھروں میں بلکہ بہت سے خاندانوں میں نا اتفاقی ہوجاتی ہے۔ مردوں میں یہ بے احتیاطی ہے کہ ان کی باتیں سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اورخود اس کفران اور اذہاب کی وجہ دو ہیں: اوّل تو ان کو زوج کی مساوات کازعم ہوتاہے کہ ہم اس سے کیاکچھ کم ہیں۔ چنانچہ یہاں تک کوشش ہوتی ہے کہ مناظرہ میں بھی ہم غالب رہیں۔ جوبات شوہر کہتا ہے اس کا جواب اُن کے پاس تیار رہتاہے۔ کوئی بات بھی بے جواب نہ چھوڑیں گی، خواہ ناگوار ہویا گوارا ہو، خواہ معقول ہویانامعقول ہو۔ اور کفران کے آثار اکثر اس دعوائے مساوات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب میں اُن حضرات کی طرف متوجہ ہوتاہوں جو مساواتِ حقوقِ زوجین کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے التماس ہے کہ