اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوںکہ منفق وہی ہیں، تو کیا پھر {فَضَّلَ اللّٰہُ} کی وہ تفسیر سرتاسر مہمل اور تحریف قرآن نہ ہوگی؟ اگر یہ معنی ہوتے تو لِلنِّسَائِ فرماتے۔ عَلٰی جوکہ تسلط کے لیے ہے نہ فرماتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوںپر خلقتًا بھی فضیلت ہے۔ چنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد ہے:{اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍO}(الزخرف:۱۸) مشرکین جو ملائکہ کو بنات اللہ کہتے تھے ان کا رد اس طرح فرماتے ہیں کہ کیا تم ایسی مخلوق کی حق تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہو جوکہ پست خیال ہے اور ہمیشہ بناؤ سنگھار اور زیور میںنشو ونما پاتے ہیں، اور دوسرے یہ کہ اُن میں مقابلہ کے وقت قوت بیانیہ نہیں ہے۔ واقعی یہ دو صفتیں جو عورتوں کی ارشاد فرمائی ہیں کھلم کھلا نظر آتی ہیں۔ زیور اور آرایش اور بناؤ سنگھار میں شب وروز رہتی ہیں، اس سے آگے ان کاخیال ترقی ہی نہیں کرتا۔ غایتِ مقصود اپنا اسی کو سمجھتی ہیں اور مقابلہ اور مناظرہ کے وقت ان کے دلائل میں قوت بالکل نہیں ہوتی، اِدھر اُدھر کی باتیں بہت کریں گی لیکن کسی امر پر دلیلِ صحیح ہرگز نہ بیان کرسکیں گی۔ کوئی عورت یہ نہ کہے کہ یہ زیور تو ہم کو ماں باپ نے پہنادیااس سے عادت ہوگئی۔ اس سے میلان کہاں ثابت ہوا؟ جواب یہ ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، اگرماں باپ بھی پہنادیں تب بھی ان کا طبعی میلان نمایش وآرایش کی طرف ہے۔ چنانچہ بہت سے واقعات اس کے مشاہد ہیں۔ اور اسی طرح اگر کوئی صاحب دوسرے جزو میں یعنی قوتِ بیانیہ میں کمی کے بارے میں فرماویں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہماری عورتوں کی تعلیم نہیں ہوتی، اگر تعلیم وتربیت کامل ہو تو یہ نقصان ہرگز نہ رہے ،یہ بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ جو عورتیں تعلیم یافتہ کہلاتی ہیں وہ بھی معلوم ہوا کہ لیکچروں میں ناقص تقریر کرتی ہیں۔ ان کے شوہر اس لیکچر کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہ حکمت تبرعاً بیان کردی گئی ورنہ یہ کہنا کافی ہے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوگی۔ہمارا کوئی فائدہ اس کی تعیین پر موقوف نہیں۔ اسی واسطے جو چیزیں فضول ہیں ان کی تحقیق وتفتیش سے منع کردیا گیا ہے۔ ہم کو اس تحقیق سے کیا فائدہ ہے کہ فلاں ناقص کیوں ہے، فلاں کامل کیوں؟ ہم کو تو اس کے نتائج واحکام پر عمل کرنا چاہیے۔ بہرحال تقریر سے معلوم ہوگیا کہ نقصانِ عقل اضطراری اور خلقی ہے۔ اور دوسرا نقصان یعنی نقصانِ صلوٰۃ جس کو نقصانِ دین فرمایا ہے جس کا سبب حیض کا آنا فرمایا ہے، وہ تو ظاہر ہی ہے کہ خلقی ہے۔ اور تین امر اختیاری ان کی طرف منسوب فرمائے کہ ان کا ازالہ ان کے اختیار میں ہے۔ وہ کفرانِ عشیر ،واذہابِ لبِّ رجلِ حازم، واکثارِ لعن، چوںکہ یہ اختیاری ہیں اس لیے ان کو نقص نہ کہنا چاہیے ،بلکہ ان کو شَر کے نام سے موسوم کرنا مناسب ہے۔