اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس واسطے کہ آپ حضرات کے ذمہ ان کی تعلیم بھی ہے۔ حدیث میں ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رِعِیَّتِہٖ۔مرد اپنے خاندان میں اپنے متعلقین میں حاکم ہے۔ قیامت میں پوچھا جائے گا کہ محکومین کا کیا حق ادا کیا ؟اور محض نان ونفقہ ہی سے حق ادا نہیں ہوتا، کیوںکہ یہ کھا نا پینا تو حیاتِ دنیا تک ہے آگے کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے صرف اس پر اکتفا کرنے سے حق ادا نہیں ہوتا ۔ چناںچہ حق تعالیٰ نے صاف لفظو ں میں ارشاد فرمایاہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا }(التحریم:۶) اے ایمان والو! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل کو دوزخ سے بچاؤ۔ یعنی ان کو تعلیم کرو ،حقوق الٰہی سکھاؤ، ان سے تعمیل بھی کراؤ جب قدرت ہو۔ اس میں آپ معذور نہ ہوں گے کہ ایک دفعہ کہہ دیا رسم کے طور پر پھر چھوڑدیا۔ آپ ایک دفعہ کہنے میں سبکدوش نہ ہوں گے۔ اگر یہی مذاق ہے تو کھانے میں اگر نمک تیز کر دیں تو اس وقت بھی اسی مذاق پر عمل کیا جائے کہ ایک بار کہہ دیا کہ بی بی! اتناتیز نمک ہے کہ کھایا ہی نہیں جاتا،یہ کہہ کرفارغ ہوجائے۔ پھر اگر ایسا اتفاق ہو تو کچھ نہ کہیے حالاںکہ وہاں ایسا نہیں کرتے، بلکہ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ اگر پھر کرے تو مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں سکوت سے ضرر سمجھاجاتاہے اور دین کے معاملے میں یوں کہہ دیتے ہیں کہ جیسا کرے گی ویسا بھرے گی۔ اور غور سے دیکھیے تو وہاں ضررہی کیاپہنچا؟ صرف یہ کہ کھانا بگڑگیا، اور کچھ زیادہ بات ہوئی؟ یہاں تو دین کاضرر ہے۔ اب سمجھ لیجیے جیسے سکوت سے وہاں آپ کا ضرر ہے سکوت سے یہاں بھی آپ کا ضرر ہے کہ ان کے متعلق آپ سے بازپرس ہوگی۔ یہ کیا تھوڑا ضرر ہے؟ اب دوسرے مذاق کے اعتبار سے اور گفتگو کرتا ہوں ۔ کوئی آپ کا چاہتابچہ ہو ،وہ دوا نہ پیے تو آپ زبردستی دوا پلاتے ہیں ،بے مروتی گوارا کرتے ہیں۔ اگر ویسے نہ پیے تو چمچہ سے اس کے منہ میں ڈالتے ہیں اس خیال سے کہ یہ تو بے وقوف ہے، نادان ہے ،انجام پر اس کی نظر نہیں، مگر ہم کو اللہ تعالیٰ نے سمجھ دی ہے ،وہاں اس کو آزا د نہیں چھوڑتے ہر طرح سے اس کی حفاظت رکھتے ہیں۔ سو کیا وجہ ہے کہ وہاں تو اس مذاق سے کام لیا جاتا ہے اور یہاں نہیں لیا جاتا۔ سچ یوں ہے کہ مردوں نے بھی دین کی ضرورت کو ضرورت نہیں سمجھا۔ کھانا ضروری، فیشن ضروری، ناموری ضروری، مگر غیر ضروری ہے تودین۔ دنیا کی ذرا ذراسی مَضرّت کا خیال ہوتا ہے او ریہ نہیںسمجھتے کہ اگر دین کی مَضرّت پہنچ گئی تو کیسا بڑا نقصان ہوگا۔ پھر وہ مَضرت اگر ایمان کی حد میں ہے تب تو چھٹکارا بھی ہوجائے گا مگر نقصان جب بھی ہوگا، گو دائمی نہ ہو۔اور اگر ایمان کی حد سے بھی نکل گئی تو ہمیشہ کا مرنا ہوگیا۔ اور تعجب ہے کہ دنیا کی باتوں سے توبے فکری نہیں ہوتی مگر دین کی باتوں سے کس طرح بے فکری ہوجاتی ہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے: چوں چنیں کارے ست اندر رہ ترا