اصلاح النساء - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قصور عورتوںکاتو ہے ہی ،کچھ ڈھیلا پن مردوں کا بھی ہے کہ وہ ان باتوں کو معمولی سمجھ کر عورتوں پر روک ٹوک نہیں کرتے حالاںکہ یہ باتیں خفیف نہیں ہیں۔ لعنت سے زیادہ اورکیا سختی ہوگی؟ جب ان باتوں پر لعنت آئی ہے توخفیف کیسی؟ مگر یوں کہیے کہ لوگوں کو دین کا اہتمام ہی نہیں۔ سالن میں ذرا نمک تیز ہوجائے تو مرد ایسے خفا ہوجاتے ہیں کہ کھانا نہ کھاوے اور رکابی بی بی کے مُنہ پر دے مارے، اسے مارنے پیٹنے کو کھڑے ہوجاویں، مگر لعنت کے کام پر ذرا حرکت نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض مرد تو ایسے آوارہ مزاج ہیں کہ باہر والی عورتوںکودیکھ کر ان کے دل میں خود ہی شوق اٹھتا ہے کہ گھر والیوں کو ان ہی جیسا بنائیں۔ افسوس! کہاں گئی ان کی غیرت اورکہاں گئی اُن کی شرافت؟ کیا شریف بیبیوں کو بازاری بنانا چاہتے ہیں؟ گھر میں رہنے والی عورتیں تو بس اول جلول ڈھیلی ڈھالی وضع ہی میں اچھی لگتی ہیں۔یہ کیا کہ کسی کسائی پھرتی ہیں۔ یہ کوئی سپاہی ہیںجو ہر وقت کمر کسی ہوئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میلی کچیلی نہ رہیں، کیوںکہ صفائی اور زینت، یہ زوج کاحق ہے۔ مگر یہ مناسب نہیں کہ آستینں بھی کَسی ہوئی ہیں، پاجامے بھی ایسے چست ہیں کہ چٹکی لو تو کھال چٹکی میں آجاوے۔ جوتا بھی چڑھا ہوا ہے۔ یہ کیا لغو حرکتیں ہیں؟ خدا تعالیٰ نے تو تم کو عورت بنایا ہے، تم مرد کیسے بن سکتی ہو؟ یہ تو قلب موضوع ہے۔ بیان بطور تفریح کے ہوگیاورنہ اصلی بیان ختم کرچکا ہوں۔ خلاصۃ الخلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مردوں کوعورتوں پر علی الاطلاق فضیلت ہے اور عورت مرد کے مقابلہ میںمطلقاً کوئی چیز نہیں، یہ غلط ہے بلکہ بعضی باتوں میں عورت مرد کے برابر ہے اور بعضی باتوں میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے۔ یعنی اعمال میں کہ نماز، روزہ زیادہ کرے تو مرد سے زیادہ درجہ حاصل کرسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو عورت خاوند سے زیادہ دین دار ہو اس کو خاوند کی اطاعت اور تعلیم لازم نہ رہے گی، بلکہ خاوند کو اس کی اطاعت وتعظیم کرنا پڑے گی۔ یہ مطلب ہرگز نہیں۔ کیوںکہ فضیلت کی دوحیثیتیں ہیں: ایک باعتبار زوجیت کے ،اس اعتبار سے عورت کو خاوند پر کسی طرح بھی فضیلت حاصل نہ ہوگی ،بلکہ اس حیثیت سے ہمیشہ خاوند ہی کو بی بی پر فضیلت ہے۔ گوحقوق بی بی کے بھی ہیں خاوند پر لیکن خاوند کو بہرحال فضیلت ہے۔ اور ایک فضیلت باعتبار دین اور اعمال کے ہے۔ سو اس میں بی بی خاوند سے بڑھ بھی سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ حق تعالیٰ کے یہاں اس کے احسانات اور درجات زیادہ ہوں کیوںکہ اس کا مدار اعمال پر ہے، مگر اس فضیلت سے بیوی خاوند کی مخدومہ نہیں بن سکتی بلکہ خادمہ ہی رہے گی۔ مگر ہرصورت میںمَردوں کو اپنی بیبیوں کی قدر کرنا چاہیے دوجہ سے: ایک تو بی بی ہونے کی وجہ سے کہ وہ اُن کے ہاتھ میں قید ہیں اوریہ بات جواںمردی کے خلاف ہے کہ جو ہر طرح اپنے بس میں ہو اُس کو تکلیف پہنچائی جائے۔دوسرے دین کی