ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
|
کہ بود تقلید اگر کوہ تو بست قابل تحقیق ہیں سو جواب یہ ہے کہ یہاں تقلید سے مراد مجتہدین کی تقلید نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بلا اطلاع علی حقیقۃ الحال دوسروں کی نقل کرنا ہے سو یہ تقلید اگر بری باتوں میں ہے تو مطلقا مذموم ہے کم ہو ظاہر اور اگر اچھی باتوں میں ہے تو مذموم اضافی یعنی تحقیق کے مقابلہ میں مذموم ہے گو فی نفسہ محمود ہے ۔ چنانچہ خود مولانا فرماتے ہیں ۔ ہم مقلد نیست محروم از ثواب توجہ گر مزد باشد در حساب مولوی ابو الحسن صاحب نے پوچھا کل آپ نے فرمایا تھا کہ وحدۃ الوجود کومیں افضل الاحوال وارفع المقامت سمجھتا ہوں ۔ وحدۃ الوجود کے معنی میری سمجھ میں نہیں آتے فرمایا آپ کیا سمجھتے ہیں ۔ عرض کیا میں وہی سمجھتا ہوں جو حضرت نے کیلد مثنوی میں لکھا ہے جس کا نام وحدۃ الشہود ہے کیا وہ اور یہ ایک ہیں فرمایا ہاں صرف اختلاف عنوان ہے ( اس کے بعد اس پر طویل تقریر فرمائی اور اس مسئلہ کو ایسی وضاحت سے بیان فرمایا ۔ جس کی نسبت بمالا مزید علیہ کہنا صحیح ہے اور خود ہی فرمایا کہ میں نے ہندی کی چندی کردی ۔ اور اسی ضمن میں مقامات انبیاء کے متعلق بھی تقریر فرمائی اور احقر کی درخواست پر اسکا نام ادب الالوھیہ والرسالۃ تجویز فرمایا ۔ افسوس ہے کہ اس کا مسودہ بھی ایسا گڑ بڑ ہو گیا کہ صاف نہیں ہو سکا ۔ انا لله وانا اليه راجعون يه تقرير نہایت مبسوط تھی اور شافی وکافی تھی ۔ احقر نے عرض کیا افسوس ہے کہ آج کی تقریر کے الفاظ محفوظ نہ رہے گویہ تقریر حضرت کی تحریر میں کہیں مل جائے گی لیکن وہ ایسی نہ ہوگی ۔ فرمایا میری تقریر میں تو وسعت ہوتی ہے اور تحریر تنگ ہوتی ۔ حتی کہ بعض دفعہ میں بھی نہیں سمجھتا ( احقر کہتا ہے تنگی تحریر کے معنی یہ ہیں کہ وہ مختصر ہوتی نہ یہ کہ وہ افادہ مطلب سے بھی تنگ ہوتی ہے کما ہو مشاہد فی جملہ تحریر اتہ اور وجہ اس کی یہ کہ اختصار اور ترک لا یعنی حضرت کی طبیعت میں داخل ہے گویا طبیعت ثانیہ ہے اور اس کا بیان حضرت کے ایک ملفوظ میں موجود ہے ۔ جس کو مختصرا حسن العزیز سے نقل کیا جاتا ہے صفحہ 48 نمبر 71 ۔ جی چاہتا ہے کہ قلب کو فارغ اور مہیا رکھا جائے گو توجہ بحق کی تقفیق نہ ہو ۔ مگر مانع تو کم رہیں یعنی قلب کو تیار رکھنا چاہئے ۔ تاکہ جس وقت توفیق ہو آسانی کے ساتھ اس کو متوجہ کر سکے انتہا ظاہر ہے کہ اگر تحریر میں بسط