خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر۱۸ سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ ہَلْ کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَضْحَکُوْنَ؟قَالَ نَعَمْ وَ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِھِمْ اَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ؎ ترجمہ:حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا کرتے تھے؟ تو فرمایا کہ ہاں! مگر ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔ حدیثِ پاک میں کثرتِ ضحک سے دل مردہ ہونے کی جو و عید وارِد ہوئی ہے اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلت کے ساتھ ہو۔ یہ بات ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں حدیث اِنَّ کَثْرَۃَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ کی شرح میں لکھی ہے (اور فرمایاہے أَیْ اَلْمُوَرِّثَۃُ لِلْغَفْلَۃِ عَنِ الْاِسْتِعْدَادِ لِلْمَوْتِ وَمَا بَعْدَہٗ مِنَ الزَّادِ لِلْمَعَادِ یہاں زیادہ ہنسنے سے مراد وہ ہنسی ہے جو موت اور مابعد الموت آخرت کے لیے زاد راہ جمع کرنے سے غافل کرنے والی ہو)جولوگ شرح نہیں دیکھتے وہ مطلق ہنسی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ اگر حدیث ِپاک کے یہ معنیٰ ہوتے جو یہ متقشف لوگ سمجھتے ہیں تو ہنسناثابت ہی نہ ہوتا، حالاں کہ بہت سی احادیث میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اتنا ہنسے حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ؎ کہ آپ کی داڑھیں کھل گئیں اور صحابہ کرام بھی ہنسا کرتے تھے کَانُوْا یَضْحَکُوْنَ وَ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِھِمْ اَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِصحابہ کرام خوب ہنستے تھے، لیکن ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی زیادہ تھا۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتئ اعظم پاکستان نے بتایا کہ ایک بار خواجہ صاحب نے ہم لوگوں کو خوب ہنسایا پھر ہم لوگوں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ، اس وقت ہنسی کی حالت میں کس کس کا دل اللہ سے غافل تھا،حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم لوگ خاموش رہے، تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد للہ! ------------------------------