خزائن الحدیث |
|
حدیث نمبر ۱۰ اَللّٰھُمَّ اَرْضِنَا وَ ارْضَ عَنَّا؎ ترجمہ:اے اللہ! آپ ہم کو خوش کر دیجیے اور ہم سے خوش ہو جائیے۔حدیث اَللّٰھُمَّ اَرْضِنَا…الٰخ کی تشریح کی الہامی تمثیل حدیثِ پاک کی دعا ہے:اَللّٰھُمَّ اَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّااے اللہ! آپ ہم کو خوش کر دیجیے اور ہم سے خوش ہو جائیے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دعا میں بندہ کی خوشی کو مقدم فرمایا اوراللہ کی خوشی کو مؤخر فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ علومِ نبوت قرآن پاک سے ماخوذ اور مقتبس ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً؎ اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف چل اس طرح کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش۔ بندہ کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں مقدم فرمایا اور اپنی خوشی کو مؤخر فرمایا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا میں وہی ترتیب رکھی جو قرآن پاک میں نازل ہے، لہٰذا یہ حدیث قرآن پاک کی اس آیت سے مقتبس ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک سوال قائم کیا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشی تو اعلیٰ چیز ہے اور بندوں کی خوشی اس کے مقابلہ میں ادنیٰ چیز ہے، تو پھر بندوں کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے کیوں مقدم کیا؟ اس کا جواب خود علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا کہ اس کا نام ہے اَلتَّرَقِّیْ مِنَ الْاَدْنٰی اِلَی الْاَ عْلٰی کہ ------------------------------