خزائن الحدیث |
|
جس پر حق تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہو۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہ مَا ظرفیہ زمانیہ مصدریہ ہے، جس کا ترجمہ ہو گا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْکہ جس وقت میرے رب کی رحمت کا سایہ ہو گا تب نفس کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر آپ کی رحمت کا سایہ اس نفس پر پڑگیا، تو یہ کر گس بھی پھر بازِ شاہی اور بازِ سلطانی کا کردار ادا کرسکتا ہے اورآپ کی بارگاہ میں سجدہ ریز و اشکبار ہوسکتا ہے۔ میرے قلب و جاں آپ سے اس درجہ چپک سکتے ہیں کہ ساری کائنات مجھے آپ سے ایک بال کے برابر جدا نہیں کر سکتی، لہٰذا آپ ہمیشہ اور ہر لمحہ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں رکھیے، ایک لمحہ کے لیے مجھ کو میرے نفس کے سپرد نہ کیجیے، ورنہ خوف ہے کہ یہ راہِ طاعت و سعادت کو چھوڑ کر راہِ شقاوت اختیار کر لے، کیوں کہ معصیت شقاوت کی راہ ہے اور ترکِ معصیت نزولِ رحمت کی دلیل ہے، اسی لیے ہمیں حدیثِ پاک میں یہ دعا بھی سکھائی گئی: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ وَلَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ اے اللہ! ہم پر وہ رحمت نازل فرما دے جس سے ہمیں گناہ چھوڑنے کی توفیق ہو اور اپنی نا فرمانی سے ہمیں شقی اور بد بخت نہ ہونے دیجیےوَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اور ہمیں ایک پل کے لیے ہمارے نفس کے حوالے نہ کیجیے۔حدیث نمبر۳۹ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ؎ ترجمہ: اے اﷲ! میں آپ سے آپ کی رضا اور جنت کا سوال کرتا ہوں ا ور آپ کی ناراضگی اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا؎ جو مجھے بھول جاتا ہے اس کی زندگی تلخ کر دی جاتی ہے، جیسے مچھلی کو پانی سے نکال لو تو جس طرح وہ تڑپتی ہے ------------------------------