خزائن الحدیث |
|
ان کا دل خون ہو جائے گا اور وہ ندامت سے آہ و زاری کر کے معافی مانگ کر ہم کو راضی کریں گے اور ہم اس ندامت کی راہ سے ان کو اپنا قرب عطا فرمائیں گے۔حدیث نمبر۵۵ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا مُ: ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا؎ ترجمہ:بندۂ مؤمن سے نیک گمان رکھو۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مؤمن کے ساتھ نیک گمان رکھو۔ اس حدیث کی شرح میں علمائے ربانیّین فرماتے ہیں کہ اگر کسی چیز کے اندر ننانوے دلائل ہوں بد گمانی کے، لیکن ایک راستہ ہو حسنِ ظن کا تو عافیت کا راستہ یہی ہے کہ حسنِ ظن کے اس ایک راستہ کو اختیار کر لو۔ کیوں؟ اس کی وجہ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ میرے مرشد اوّل فرمایا کرتے تھے کہ بد گمانی پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقدمہ دائر فرمائیں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بد گمانی کے تمہارے پاس کیا دلائل تھے اور نیک گمان پر بلادلیل انعامعطا فرمائیں گے۔حسنِ ظن پر بغیر دلیل کے ثواب ملتا ہے کیوں کہ امر ہے ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا لہٰذا مقدمہ میں جان پھنسانا بے وقوفی، حماقت اور نادانی ہے۔ حضرت ہنس کر فرماتے تھے کہ احمق ہے وہ شخص جو مفت میں ثواب لینے کے بجائے اپنی گردن پر مقدمات قائم کرنے کے انتظامات کررہا ہے اور اپنے لیےمصیبتیں تیار کر رہا ہے۔ نیک گمان کر کے مفت میں ثواب لو اور بدگمانی کر کے دلائل پیش کرنے کے مقدمات میں اپنی جان کو نہ پھنساؤ۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعتراض کا منشاء دو طرح کاہوتا ہے،’’قلتِ محبت‘‘اور’’ قلتِ علم‘‘یعنی اعتراض عموماًدو قسم کے لوگوں کو ہوتا ہے،یا تو اس کے اندر محبت کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر آدمی کے اندر کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے ------------------------------