خزائن الحدیث |
|
کرنے والے دوستو! کیا تصور میں یہ مزہ نہیں ہے کہ ہم تو نہیں پہنچے مگر ہمارا ذکر اللہ تک اور عرشِ اعظم تک پہنچ جائے ساتوں آسمان عبور کر کے۔ مولانا بدرِ عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ترجمان السُّنَّہ میں لکھتے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ کی رفتار اور کاٹ اتنی تیز ہے کہ ساتوں آسمان پار کر کے عرشِ اعظم پر اللہ سے ملتی ہے، اگر اللہ کو عرشِ اعظم پر نہ پاتی تو عرشِ اعظم سے بھی آگے بڑھ جاتی۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے ؎ نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہوجائے مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہوجائے یہ لَا اِلٰہَ کا ذکر ہو گیا اوراِلَّا اللہْ میں یہ تصور ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نور کا ستون ہمارے قلب میں لگا ہوا ہے اور عرشِ اعظم سے نور آ رہا ہے اور اللہ اللہ میں دوضربیں ایک لطیفۂ قلب پر اور ایک لطیفۂ روح پر ہو۔ آخر میں جو ایک اللہ کی تسبیح ہے اس میں یہ تصور ہو کہ میرے بال بال اللہ اللہ کہہ رہے ہیں۔ یہ طریقہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں بتایا کہ مولانا عبدالغنی! اللہ اللہ اس طرح کہو کہ زبان سے اللہ نکلا اور دل سے بھی نکلا اور کھینچ کر کہو’’ اللہ‘‘ اور آہ بھی شامل کر لو اور یہ تصور کرو کہ میرے بال بال سے، ذرّہ ذرّہ سے، سمندر کے ہر قطرہ سے ،درختوں کے ہر پتے سے اور عالم کے ایک ایک ذرّہ سے او ر سورج اور چاند سب ہمارے ساتھ اللہ کہتے ہیں۔ذکر کے بعد دعا اور ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ سے پھر یہ دعا کرے کہ یا اللہ! اس ذکر کی برکت سے ذاکر کو مذکور تک پہنچا دے یعنی اپنی ذات تک مجھے پہنچا دے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ ذکر، ذاکر کو مذکور تک پہنچا دیتا ہے۔ ذال، کاف، را، ذاکر میں بھی ہے مذکور میں بھی ہے، یہ ذکرواسطہ اور رابطہ ہے بندہ اور اللہ کے درمیان۔